ہفتہ، 10 اکتوبر، 2020

دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا

 دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا 

یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا 


کمسن ہیں وہ ایسے انہیں ظالم کہوں کیسے 

معصوم پہ الزام لگایا نہیں جاتا 


آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رخ نے 

آئینے کو آئینہ دکھایا نہیں جاتا 


کیا چھیڑ ہے آنچل سے گلستاں میں صبا کی 

ان سے رخ روشن کو چھپایا نہیں جاتا 


حیرت ہے کہ مے خانے میں جاتا نہیں زاہد 

جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا 


اب موت ہی لے جائے تو لے جائے یہاں سے 

کوچے سے ترے ہم سے تو جایا نہیں جاتا 


اس درجہ پشیماں مرا قاتل ہے کہ اس سے 

محشر میں مرے سامنے آیا نہیں جاتا 


پرنمؔ غم الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ 

اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا


پرنم الہ آبادی

جمعرات، 8 اکتوبر، 2020

اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ

 اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ

تو میرے شہر میں آئے گا _تو چھا جائے گا
ہم قیامت بھی اٹھائیں گے تو ہوگا نہیں کچھ
تو فقط آنکھ اٹھائے گا _تو چھا جائے گا
پھول تو پھول ہیں وہ شخص اگر کانٹے
اپنے بالوں میں سجائے گا_ تو چھا جائے گا
یوں تو ہر رنگ ہی سجتا ھے برابر اس پر
سرخ پوشاک میں آئے گا _تو چھا جائے گا
جس مصور کی نہیں بکتی کوئی بھی تصویر
تیری تصویر بناۓ گا_ تو چھا جائے گا
رحمان فارس

اتوار، 4 اکتوبر، 2020

ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

 ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے

 

یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے

مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے


جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج

اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے


گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے

بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے


لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگِ ساحِل پر

بہت دِنوں سے سمندر اُداس رہتا ہے


میں وحشتوں کےسفرمیں بھی، ہُوں کہاں تنہا

یہی گماں ہے کوئی آس پاس رہتا ہے




وہ فاصلوں میں بھی رکھتا ہے رنگ قُربت کے

نظر سے دُور سہی، دِل کے پاس رہتا ہے


جب اُن سے گفتگو کرتا ہے کوئی بھی اعجاز !

اِک اِلتماس، پسِ اِلتماس رہتا ہے


اعجاز رحمانی

ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

نہ نصیب ہو تجھے ہنسنا، تیرے دل میں درد اٹھا

 یہ دعا ہے آتشِ عشق میں تو بھی میری طرح جلا کرے


نہ نصیب ہو تجھے ہنسنا، تیرے دل میں درد اٹھا کرے


زلفیں کھولے اور چشم تر، تیرے لب پہ نالۂ سوزگر


تو میری تلاش میں دربدر لئے دل کو اپنے پھرا کرے


تو بھی چوٹ کھائے او بے وفا، آئے دل دکھانے کا پھر مزا


کرے آہ و زاریاں درد، مجھے بے وفا تو کہا کرے


رہے نامراد رقیب تو، نہ خدا دکھائے تجھے خوشیاں


نہ نصیب شربت دل ہو، سدا زہرِ غم تو پیا کرے


تجھے مرض ہو تو ایسا ہو، جو دنیا میں لاعلاج ہو


تیری موت تیرا شباب ہو، تو تڑپ تڑپ کے جیا کرے


تیرے سامنے تیرا گھر جلے، تیرا بس چلے نہ بجھا سکے


تیرے منہ سے نکلے یہی دعا کہ نہ گھر کسی کا جلا کرے


تجھے میرے ہی سے خلش رہے، تجھے میری ہی تپش رہے


جیسے تو نے میرا جلایا دل، ویسے تیرا بھی دل جلا کرے


جو کسی کے دل کو دکھائے گا، وہ ضرر ضرور اٹھائے گا


وہ سزا زمانے سے پائے گا، جو کسی سے مل کر دغا کرے


تیرا شوق مجھ سے ہو پیکرانہ، تیری آرزوئیں بھی ہوں جوان


مگر عین عہدِ بہار میں، لٹے باغ تیرا خدا کرے


خدا کرے آئے وہ بھی دن، تجھے چین آئے نہ مجھ بن


تو گلے ملے، میں پرے ہٹوں، میری منتیں تو کیا کرے


(جگر مراد آبادی)

💔💔

جمعہ، 25 ستمبر، 2020

اگر تعلق پہ برف ایسے جمی رہے


اگر تعلق پہ برف ایسے جمی رہے گی

 ہمیں تمہاری، تمہیں ہمہاری کمی رہے گی


مرے لہو میں بغاوتوں کا رچاؤ سا ہے

مری ہمیشہ صلیب سے ہمدمی رہے گی


سمے کا دھارا سفید روئی گرا رہا ہے

میں سوچتا ہوں وہ زلف کیا ریشمی رہے گی!!!!! 


ہمیں مکمل خوشی کبھی نہ نصیب ہوگی

ہماری قسمت میں ہلکی پھلکی غمی رہے گی


اے میرے بارش کے موسموں میں بچھڑنے والے

بتا ان آنکھوں میں کب تلک یوں نمی رہے گی؟ 


میں اپنے قدموں پہ اپنے دم سے کھڑا ہوا ہوں

ان آندھیوں کی تو مجھ سے یہ برہمی رہے گی


پکڑ کے رکھا ہوا ہے جب تک یوں ہاتھ تم نے

یہ سانس میری تھمی ہوئی ہے تھمی رہے گی


آزاد حسین آزاد

محبت کے اصولوں سے

 محبت کے اصولوں سے

کبھی الجھا نہیں کرتے

یہ الحاد حقیقت ھے،

سنو ایسا نہیں کرتے

بہت کم ظرف لوگوں سے

بہت محتاط رھتے ھیں

بنا سوچے سمندر میں

یونہی اترا نہیں کرتے

تیری ساقی سخاوت پہ میں

سانسیں وار دوں لیکن

میرے کامل کا فرماں ھے

کبھی بہکا نہیں کرتے

محبت سے ضروری ھے

غم دنیا کا افسانہ

محبت کے حسیں قصوں میں

کھو جایا نہیں کرتے

جسے دیکھو ،

اسے سوچو ،

جسے سوچو ،

اسے پاؤ

جسے نہ پا سکو...

اسکو کبھی دیکھا نہیں کرتے

مجھے تائب ،

وفا بردار لوگوں سے شکایت ھے

بہت تنقید کرتے ھیں ،

مگر اچھا نہیں کرتے....!!

ہم لوگ بھی زندہ ہیں

 

ہم لوگ بھی زندہ ہیں 
ذرا بول کے دیکھو خاموش کتابیں ہیں ذرا کھول کے دیکھو🌷 
 ہر شخص عقیدت سے نہ جھک جائے تو کہنا 
باتوں میں محبت کا شہد گھول کر تو دیکھو 
 ذرہ نظر آتے ہیں مگر کوہِ گراں ہیں ہم شک ہے تو دوست ہمیں تول کے دیکھو
🌷 پرکھے ہوئے موتی ہیں زمانے کو پتہ ہے ایسا کرو مٹی میں ہمیں رول کے دیکھو
 اچھے نظر آئیں گے ، برے بھی تمھیں فارسؔ🌷 آنکھوں سے تعصب کی گرہ کھول کے دیکھو

اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو

اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو
کیا جانے کہاں تک شب ہجراں کا دھواں ہو
میں ایک زمانے سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں
تم ایک زمانے سے خدا جانے کہاں ہو
خیال امروہوی

منگل، 22 ستمبر، 2020

وہ پھر رو دیئے۔۔۔۔۔۔ہم کو خوش دیکھ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 وہ پھر رو دیئے۔۔۔۔۔۔ہم کو خوش دیکھ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بھیگی پلکوں سے بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم کو تو بددعا بھی نہیں لگتی۔۔۔۔۔۔💔

اتوار، 20 ستمبر، 2020

کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہُوا مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے

 وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ہے

وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے

یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہُوا

مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے

ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسوؤں کے چراغ

کبھی یہ جشن، سرِ رہگزار کرنا ہے

وہ مسکرا کے نئے وسوسوں میں ڈال گیا

خیال تھا کہ اسے شرمسار کرنا ہے

مثالِ شاخِ برہنہ خزاں کی رُت میں کبھی

خود اپنے جسم کو بے برگ و بار کرنا ہے

تیرے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے

کہ شغلِ شب تو ستارے شمار کرنا ہے

چلو یہ اشک ہی موتی سمجھ کے بیچ آئیں

کسی طرح تو ہمیں روزگار کرنا ہے

کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں

قبا سمجھ کے بدن تار تار کرنا ہے

خدا خبر، یہ کوئی ضد، کہ شوق ہے محسنؔ

خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ہے


محسن نقوی