اتوار، 4 اکتوبر، 2020

ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

 ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے

 

یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے

مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے


جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج

اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے


گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے

بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے


لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگِ ساحِل پر

بہت دِنوں سے سمندر اُداس رہتا ہے


میں وحشتوں کےسفرمیں بھی، ہُوں کہاں تنہا

یہی گماں ہے کوئی آس پاس رہتا ہے




وہ فاصلوں میں بھی رکھتا ہے رنگ قُربت کے

نظر سے دُور سہی، دِل کے پاس رہتا ہے


جب اُن سے گفتگو کرتا ہے کوئی بھی اعجاز !

اِک اِلتماس، پسِ اِلتماس رہتا ہے


اعجاز رحمانی

ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

نہ نصیب ہو تجھے ہنسنا، تیرے دل میں درد اٹھا

 یہ دعا ہے آتشِ عشق میں تو بھی میری طرح جلا کرے


نہ نصیب ہو تجھے ہنسنا، تیرے دل میں درد اٹھا کرے


زلفیں کھولے اور چشم تر، تیرے لب پہ نالۂ سوزگر


تو میری تلاش میں دربدر لئے دل کو اپنے پھرا کرے


تو بھی چوٹ کھائے او بے وفا، آئے دل دکھانے کا پھر مزا


کرے آہ و زاریاں درد، مجھے بے وفا تو کہا کرے


رہے نامراد رقیب تو، نہ خدا دکھائے تجھے خوشیاں


نہ نصیب شربت دل ہو، سدا زہرِ غم تو پیا کرے


تجھے مرض ہو تو ایسا ہو، جو دنیا میں لاعلاج ہو


تیری موت تیرا شباب ہو، تو تڑپ تڑپ کے جیا کرے


تیرے سامنے تیرا گھر جلے، تیرا بس چلے نہ بجھا سکے


تیرے منہ سے نکلے یہی دعا کہ نہ گھر کسی کا جلا کرے


تجھے میرے ہی سے خلش رہے، تجھے میری ہی تپش رہے


جیسے تو نے میرا جلایا دل، ویسے تیرا بھی دل جلا کرے


جو کسی کے دل کو دکھائے گا، وہ ضرر ضرور اٹھائے گا


وہ سزا زمانے سے پائے گا، جو کسی سے مل کر دغا کرے


تیرا شوق مجھ سے ہو پیکرانہ، تیری آرزوئیں بھی ہوں جوان


مگر عین عہدِ بہار میں، لٹے باغ تیرا خدا کرے


خدا کرے آئے وہ بھی دن، تجھے چین آئے نہ مجھ بن


تو گلے ملے، میں پرے ہٹوں، میری منتیں تو کیا کرے


(جگر مراد آبادی)

💔💔

جمعہ، 25 ستمبر، 2020

اگر تعلق پہ برف ایسے جمی رہے


اگر تعلق پہ برف ایسے جمی رہے گی

 ہمیں تمہاری، تمہیں ہمہاری کمی رہے گی


مرے لہو میں بغاوتوں کا رچاؤ سا ہے

مری ہمیشہ صلیب سے ہمدمی رہے گی


سمے کا دھارا سفید روئی گرا رہا ہے

میں سوچتا ہوں وہ زلف کیا ریشمی رہے گی!!!!! 


ہمیں مکمل خوشی کبھی نہ نصیب ہوگی

ہماری قسمت میں ہلکی پھلکی غمی رہے گی


اے میرے بارش کے موسموں میں بچھڑنے والے

بتا ان آنکھوں میں کب تلک یوں نمی رہے گی؟ 


میں اپنے قدموں پہ اپنے دم سے کھڑا ہوا ہوں

ان آندھیوں کی تو مجھ سے یہ برہمی رہے گی


پکڑ کے رکھا ہوا ہے جب تک یوں ہاتھ تم نے

یہ سانس میری تھمی ہوئی ہے تھمی رہے گی


آزاد حسین آزاد

محبت کے اصولوں سے

 محبت کے اصولوں سے

کبھی الجھا نہیں کرتے

یہ الحاد حقیقت ھے،

سنو ایسا نہیں کرتے

بہت کم ظرف لوگوں سے

بہت محتاط رھتے ھیں

بنا سوچے سمندر میں

یونہی اترا نہیں کرتے

تیری ساقی سخاوت پہ میں

سانسیں وار دوں لیکن

میرے کامل کا فرماں ھے

کبھی بہکا نہیں کرتے

محبت سے ضروری ھے

غم دنیا کا افسانہ

محبت کے حسیں قصوں میں

کھو جایا نہیں کرتے

جسے دیکھو ،

اسے سوچو ،

جسے سوچو ،

اسے پاؤ

جسے نہ پا سکو...

اسکو کبھی دیکھا نہیں کرتے

مجھے تائب ،

وفا بردار لوگوں سے شکایت ھے

بہت تنقید کرتے ھیں ،

مگر اچھا نہیں کرتے....!!

ہم لوگ بھی زندہ ہیں

 

ہم لوگ بھی زندہ ہیں 
ذرا بول کے دیکھو خاموش کتابیں ہیں ذرا کھول کے دیکھو🌷 
 ہر شخص عقیدت سے نہ جھک جائے تو کہنا 
باتوں میں محبت کا شہد گھول کر تو دیکھو 
 ذرہ نظر آتے ہیں مگر کوہِ گراں ہیں ہم شک ہے تو دوست ہمیں تول کے دیکھو
🌷 پرکھے ہوئے موتی ہیں زمانے کو پتہ ہے ایسا کرو مٹی میں ہمیں رول کے دیکھو
 اچھے نظر آئیں گے ، برے بھی تمھیں فارسؔ🌷 آنکھوں سے تعصب کی گرہ کھول کے دیکھو

اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو

اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو
کیا جانے کہاں تک شب ہجراں کا دھواں ہو
میں ایک زمانے سے تمہیں ڈھونڈ رہا ہوں
تم ایک زمانے سے خدا جانے کہاں ہو
خیال امروہوی

منگل، 22 ستمبر، 2020

وہ پھر رو دیئے۔۔۔۔۔۔ہم کو خوش دیکھ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 وہ پھر رو دیئے۔۔۔۔۔۔ہم کو خوش دیکھ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بھیگی پلکوں سے بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم کو تو بددعا بھی نہیں لگتی۔۔۔۔۔۔💔

اتوار، 20 ستمبر، 2020

کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہُوا مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے

 وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ہے

وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے

یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہُوا

مجھے تو خیر تیرا انتظار کرنا ہے

ہوا کی زد میں جلانے ہیں آنسوؤں کے چراغ

کبھی یہ جشن، سرِ رہگزار کرنا ہے

وہ مسکرا کے نئے وسوسوں میں ڈال گیا

خیال تھا کہ اسے شرمسار کرنا ہے

مثالِ شاخِ برہنہ خزاں کی رُت میں کبھی

خود اپنے جسم کو بے برگ و بار کرنا ہے

تیرے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے

کہ شغلِ شب تو ستارے شمار کرنا ہے

چلو یہ اشک ہی موتی سمجھ کے بیچ آئیں

کسی طرح تو ہمیں روزگار کرنا ہے

کبھی تو دل میں چھپے زخم بھی نمایاں ہوں

قبا سمجھ کے بدن تار تار کرنا ہے

خدا خبر، یہ کوئی ضد، کہ شوق ہے محسنؔ

خود اپنی جان کے دشمن سے پیار کرنا ہے


محسن نقوی

منگل، 25 اگست، 2020

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


  وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو    

  وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر                             

        
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو                                   

  
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں                

وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو          


کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو               
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو                


ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم                            
گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو                              


کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی           
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو         


کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی                                  
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو                                


سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی   


تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو       

  
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا         


وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مومن خان مومن

پیر، 24 اگست، 2020

خدا کے بندے میں رو پڑوں گا اگر کسی دن دوبارہ مجھ سے

 خدا کے بندے میں رو پڑوں گا اگر کسی دن دوبارہ مجھ سے

 محبتوں کا سوال پوچھا زوال پوچھا میں رو پڑوں گا 

 میں اس کے دل میں رہا ہوں لیکن اب اس کے دل سے نکل چکا ہوں 
وہ اپنی رہ پر چلا گیا ہے میں اپنی رہ پر چلا گیا ہوں
 اب اس سے زیادہ کوئی بھی مجھ سے سوال پوچھا میں رو پڑوں گا
 تھا میری آنکھوں کا جو بھی تارا سبھی سے زیادہ تھا مجھ کو پیارا 
تھا مری چلمن کا اک ستارا وہ مجھ سے کیسے بچھڑ گیا ہے کمال پوچھا میں رو پڑوں گا 
.. خدارا اب بھی ہے میری چاہت وہ مجھ سے چاہے بچھڑ گیا ہے 
خدارا سن لے کبھی بھی اس پر زوال آیا میں رو پڑوں گا 
.... ابھی میں خوش ہوں ابھی وہ بھولی ہوئی ہے مجھ کو
 مگر اچانک کبھی جو اس کا خیال آیا میں رو پڑوں گا 
..... وہ اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اور اس کے چہرے کی روشنی پر
 کبھی خدایا جو ان اندھیروں کا جال آیامیں رو پڑوں گا