ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے
یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے
یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے
مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج
اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے
گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے
بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے
لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگِ ساحِل پر
بہت دِنوں سے سمندر اُداس رہتا ہے
میں وحشتوں کےسفرمیں بھی، ہُوں کہاں تنہا
یہی گماں ہے کوئی آس پاس رہتا ہے
وہ فاصلوں میں بھی رکھتا ہے رنگ قُربت کے
نظر سے دُور سہی، دِل کے پاس رہتا ہے
جب اُن سے گفتگو کرتا ہے کوئی بھی اعجاز !
اِک اِلتماس، پسِ اِلتماس رہتا ہے
اعجاز رحمانی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Hi guys this blog is only for poetry.