بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے
فقیر ہیں کوئی چلو خدا کی راہ ملے
۔
کہاں تھے رات کو ہم سے ذرا نگاہ ملے
تلاش میں ہو کہ جھوٹا کوئی گواہ ملے
۔
قریب مے کدہ مجھ کو جو خانقاہ ملے
گلے ثواب کے کیا کیا مرے گناہ ملے
۔
وہ روز حشر ہے دنیا نہیں کہ راہ ملے
کہاں چھپوگے جو دو چار داد خواہ ملے
۔
مری خرابی میں آ کر وہ چوکڑی بھولے
کہ پھر نہ خانہ خرابی کو گھر کی راہ ملے
۔
ترا دل آئے کسی پر تو عرش ہل جائے
اثر تلاش میں ہے اس طرح کی آہ ملے
۔
تمہارے کوچے میں ہر روز وہ قیامت ہے
کہ سایہ ڈھونڈ رہا ہے کہیں پناہ ملے
۔
ترا غرور سمایا ہے اس قدر دل میں
نگاہ بھی نہ ملاؤں جو بادشاہ ملے
۔
سر برہنہ مجنوں پہ آشیاں ہے تاج
نہ رکھے سر پہ جو فغفور کی کلاہ ملے
۔
فلک کی طرح جفائیں نہ کیجیے ہر روز
اسی قدر ہے یہ نعمت جو گاہ گاہ ملے
۔
تمہارے حسن سے کیا رتبہ ماہ کنعاں کو
وہی تو چاند جسے ڈوبنے کو چاہ ملے
۔
سب اہل حشر جب اپنے کئے کو پائیں گے
بڑا مزا ہو جو مجھ کو مرا گناہ ملے
۔
کروں میں عرض اگر جان کی اماں پاؤں
کہوں پتے کی اگر قہر سے پناہ ملے
۔
یہ ہے مزے کی لڑائی یہ ہے مزے کا ملاپ
کہ تجھ سے آنکھ لڑی اور پھر نگاہ ملے
۔
ہوا ہے درد جگر سے یہ گھر مرا تاریک
کہ موت ڈھونڈتی پھرتی ہے کوئی راہ ملے
۔
نہ اس کو صبر نہ تاثیر کا پتا یا رب
جلا دیا ہے مجھے خاک میں یہ آہ ملے
۔
بلا سے دعوئ الفت نہ پیش کرتے ہم
ملے ہوئے ہیں جو دشمن سے وہ گواہ ملے
۔
ٹھہر نہ آہ مری جان لے کے چلتے ہو
سفر کرے جو مسافر کو زاد راہ ملے
۔
مثل سنی ہے کہ ملنے سے کوئی ملتا ہے
ملو تو آنکھ ملے دل ملے نگاہ ملے
۔
قمر کو جامہ شب تو بصر کو پردۂ چشم
کئی لباس ترے نور کو سیاہ ملے
۔
اثر کہاں سے ملے جب یہ پھوٹ ہو باہم
الگ الگ رہے دونوں نہ حرف آہ ملے
۔
لگا کے پاؤں میں اس کے اڑاؤں قاصد کو
اگر مجھے ترے تو سن کی گرد راہ ملے
۔
اس انقلاب میں ڈھونڈو جو مشک اور کافور
تو یہ سفید ملے اور وہ سیاہ ملے
۔
نوید بخشش عصیاں اسے سنا دینا
جو شرمسار کہیں داغؔ رو سیاہ ملے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داغؔ دہلویؒ