دسمبر مرد جیسا ہے
یہ ایسے فرد جیسا ہے
جو سب کے بیچ رہ کر بھی
کسی سے کچھ نہ کہ کر بھی
خزاں کا درد سہھ کر بھی
کسی چٹان کی مانند
کھڑا ہے مستقل ایسے
نہ کوئ درد ہو جیسے
دکھاوے میں ہے یخبستہ
مگر پردے میں یے ہنستا
مناؤ تم سیاہ دن
یا بولو الوداع اسکو
نہ اسکو فرق پڑتا تھا
نہ اسکو فرق پڑتا ہے
اسے جو مرضی کہ ڈالو
یہ اپنی مرضی کرتا ہے۔ ۔۔۔