ہفتہ، 6 جون، 2020

Marti hoie ko bachanaaa pada muja

مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے

بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے

وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقیں

پھریوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے

بھولے سے میری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا

چہرے پہ ایک زخم لگانا پڑا مجھے

اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے

محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی

اُس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے

اُس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار

کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے

ایسے بچھڑ کے اُس نے تو مر جانا تھا حسنؔ

اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے

حسن عباسی💔💔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Hi guys this blog is only for poetry.