بدھ، 19 اگست، 2020

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے 
کوئی کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے
 کوئی ثابت ہُوا سکونِ دل و جاں نہیں
 کہیں رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے
 کوئی ترکِ تعلقات کوئی مسئلہ نہیں 
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے
 کوئی دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی 
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی  
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب میرے 
خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی اے شخص 
اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے 
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے 
کوئی 
 ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں آخر
میرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی اک شخص
 کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی۔۔



 جون ایلیاء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Hi guys this blog is only for poetry.