اگر تعلق پہ برف ایسے جمی رہے گی
ہمیں تمہاری، تمہیں ہمہاری کمی رہے گی
مرے لہو میں بغاوتوں کا رچاؤ سا ہے
مری ہمیشہ صلیب سے ہمدمی رہے گی
سمے کا دھارا سفید روئی گرا رہا ہے
میں سوچتا ہوں وہ زلف کیا ریشمی رہے گی!!!!!
ہمیں مکمل خوشی کبھی نہ نصیب ہوگی
ہماری قسمت میں ہلکی پھلکی غمی رہے گی
اے میرے بارش کے موسموں میں بچھڑنے والے
بتا ان آنکھوں میں کب تلک یوں نمی رہے گی؟
میں اپنے قدموں پہ اپنے دم سے کھڑا ہوا ہوں
ان آندھیوں کی تو مجھ سے یہ برہمی رہے گی
پکڑ کے رکھا ہوا ہے جب تک یوں ہاتھ تم نے
یہ سانس میری تھمی ہوئی ہے تھمی رہے گی
آزاد حسین آزاد
Wawooooo
جواب دیںحذف کریں