ہفتہ، 10 اکتوبر، 2020

دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا

 دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا 

یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا 


کمسن ہیں وہ ایسے انہیں ظالم کہوں کیسے 

معصوم پہ الزام لگایا نہیں جاتا 


آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رخ نے 

آئینے کو آئینہ دکھایا نہیں جاتا 


کیا چھیڑ ہے آنچل سے گلستاں میں صبا کی 

ان سے رخ روشن کو چھپایا نہیں جاتا 


حیرت ہے کہ مے خانے میں جاتا نہیں زاہد 

جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا 


اب موت ہی لے جائے تو لے جائے یہاں سے 

کوچے سے ترے ہم سے تو جایا نہیں جاتا 


اس درجہ پشیماں مرا قاتل ہے کہ اس سے 

محشر میں مرے سامنے آیا نہیں جاتا 


پرنمؔ غم الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ 

اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا


پرنم الہ آبادی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Hi guys this blog is only for poetry.