اتوار، 8 نومبر، 2020

گئے دنوں کا سُراغ لے کر

گئے دنوں کا سُراغ لے کر 
کدھر سے آیا کدھر گیا وہ  
عجیب مانوس اجنبی تھا 
مجھے تو حیران کر گیا وہ 

بس ایک موتی سی چَھب دِکھا کر 
بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر 
ستارۂ شام بن کے آیا 
برنگِ خوابِ سَحر گیا وہ 

خوشی کی رُت ھو کہ غم کا موسم 
نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم 
وہ بُوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں 
میرے تو دِل میں اتُر گیا وہ 

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا 
نہ فرصتوں کی اُداس بَرکھا 
یوں ھی ذرا سی کسک ھے دل میں 
جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ 

کچھ اب سنبھلنے لگی ھے جاں بھی 
بدل چلا رنگِ آسماں بھی 
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ھے 
جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ 

بس ایک منزل ھے بوالہوس کی 
ھزار رستے ھیں اھلِ دل کے 
یہی تو ھے فرق مجھ میں اُس میں 
گزر گیا میں ، ٹھہر گیا وہ 

شکستہ پا راہ میں کھڑا ھُوں 
گئے دنوں کو بلا رھا ھُوں 
جو قافلہ میرا ھم سفر تھا 
مثالِ گرد سفر گیا وہ 

میرا تو خُوں ھو گیا ھے پانی 
ستم گروں کی پلک نہ بھیگی 
جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے 
نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ 

وہ مئے کدے کو جگانے والا 
وہ رات کی نیند اڑانے والا 
یہ آج کیا اُس کے جی میں آئی 
کہ شام ھوتے ھی گھر گیا وہ 

وہ ھجر کی رات کا ستارہ 
وہ ھم نفس ھم سخن ھمارا 
سَدا رھے اُس کا نام پیارا 
سُنا ھے کل رات مَر گیا وہ 

وہ جس کے شانے پہ ھاتھ رکھ کر 
سفر کیا تُو نے منزلوں کا 
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج 
سر جُھکائے گزر گیا وہ 

وہ رات کا بے نَوا مسافر 
وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ 
تیری گلی تک تو ھم نے دیکھا تھا 
پھر نہ جانے کدھر گیا وہ   

"ناصر کاظمی".....

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Hi guys this blog is only for poetry.