جمعرات، 25 جون، 2020

پہلے کچھ دیر سوچتا ہوں میں

پہلے کچھ دیر سوچتا ہوں میں
پھر اچانک سے بولتا ہوں میں

مجھ سے شاید خفا خدا بھی ہو
تجھ سے پتھر کو پوجتا ہوں می

مجھ میں میرا رہا ہے کیا باقی؟
خود کو اندر سے کھوجتا ہوں میں

لوگ آتے تھے چھوڑ جاتے تھے
اب تو لوگوں کو چھوڑتا ہوں میں

مجھ سے امید تم نہیں رکھنا
سب کے سب راز کھولتا ہوں میں

اب تو وحشت سے ہوں لرز اٹھتا
آئینہ جب بھی دیکھتا ہوں میں

ایسی عادت ہے گر نہ کوئی ہو
اپنا ہی خون چوستا ہوں میں

اُس کے الفاظ تھے سمندر سے
آج تک اُن میں ڈوبتا ہوں میں

ہے نہ خود کا اتہ پتہ مجھ کو
بس اُسی کو ہی ڈھونڈتا ہوں میں

(~محمد اویس رشید)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Hi guys this blog is only for poetry.