پہلے کچھ دیر سوچتا ہوں میں
پھر اچانک سے بولتا ہوں میں
مجھ سے شاید خفا خدا بھی ہو
تجھ سے پتھر کو پوجتا ہوں می
مجھ میں میرا رہا ہے کیا باقی؟
خود کو اندر سے کھوجتا ہوں میں
لوگ آتے تھے چھوڑ جاتے تھے
اب تو لوگوں کو چھوڑتا ہوں میں
مجھ سے امید تم نہیں رکھنا
سب کے سب راز کھولتا ہوں میں
اب تو وحشت سے ہوں لرز اٹھتا
آئینہ جب بھی دیکھتا ہوں میں
ایسی عادت ہے گر نہ کوئی ہو
اپنا ہی خون چوستا ہوں میں
اُس کے الفاظ تھے سمندر سے
آج تک اُن میں ڈوبتا ہوں میں
ہے نہ خود کا اتہ پتہ مجھ کو
بس اُسی کو ہی ڈھونڈتا ہوں میں
(~محمد اویس رشید)
پھر اچانک سے بولتا ہوں میں
مجھ سے شاید خفا خدا بھی ہو
تجھ سے پتھر کو پوجتا ہوں می
مجھ میں میرا رہا ہے کیا باقی؟
خود کو اندر سے کھوجتا ہوں میں
لوگ آتے تھے چھوڑ جاتے تھے
اب تو لوگوں کو چھوڑتا ہوں میں
مجھ سے امید تم نہیں رکھنا
سب کے سب راز کھولتا ہوں میں
اب تو وحشت سے ہوں لرز اٹھتا
آئینہ جب بھی دیکھتا ہوں میں
ایسی عادت ہے گر نہ کوئی ہو
اپنا ہی خون چوستا ہوں میں
اُس کے الفاظ تھے سمندر سے
آج تک اُن میں ڈوبتا ہوں میں
ہے نہ خود کا اتہ پتہ مجھ کو
بس اُسی کو ہی ڈھونڈتا ہوں میں
(~محمد اویس رشید)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Hi guys this blog is only for poetry.