پیر، 3 اگست، 2020

مشکُوک ہے موسم، ابھی منسُوخ ہیں وعدے اِسی بے چارگی میں بال و پَر ترتیب دے لینا

"غزل" لیاقت علی عاصم بہت بکھرا ہُوا لگتا ہے گھر ترتیب دے لینا نہیں تو ساز و سامانِ سفر ترتیب دے لینا ابھی مشکُوک ہے موسم، ابھی منسُوخ ہیں وعدے اِسی بے چارگی میں بال و پَر ترتیب دے لینا تجسّس اور حیرت کو اگر ہم عَکس کرنا ہے تو خُود ہی آئنے کو توڑ کر ترتیب دے لینا یہی فُرصت کے دِن ہیں، حلقہء یاراں بھی ہے موقوُف بہت شامیں گَنوائیں، اب سَحر ترتیب دے لینا ہر اِک چہرہ یہاں کا، صُبح کے اخبار کے مانند اور اپنا کام، اپنی سی خبر ترتیب دے لینا بہت آسان لگتا تھا، بہت دُشوار تَر نِکلا کوئی مجمُوعہء عیب و ہُنر ترتیب دے لینا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Hi guys this blog is only for poetry.