پیر، 24 اگست، 2020

بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے

بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے فقیر ہیں کوئی چلو خدا کی راہ ملے 
۔ کہاں تھے رات کو ہم سے ذرا نگاہ ملے تلاش میں ہو کہ جھوٹا کوئی گواہ ملے
 ۔ قریب مے کدہ مجھ کو جو خانقاہ ملے گلے ثواب کے کیا کیا مرے گناہ ملے 
۔ وہ روز حشر ہے دنیا نہیں کہ راہ ملے کہاں چھپوگے جو دو چار داد خواہ ملے
 ۔ مری خرابی میں آ کر وہ چوکڑی بھولے کہ پھر نہ خانہ خرابی کو گھر کی راہ ملے 
۔ ترا دل آئے کسی پر تو عرش ہل جائے اثر تلاش میں ہے اس طرح کی آہ ملے 
۔ تمہارے کوچے میں ہر روز وہ قیامت ہے کہ سایہ ڈھونڈ رہا ہے کہیں پناہ ملے 
۔ ترا غرور سمایا ہے اس قدر دل میں نگاہ بھی نہ ملاؤں جو بادشاہ ملے 
۔ سر برہنہ مجنوں پہ آشیاں ہے تاج نہ رکھے سر پہ جو فغفور کی کلاہ ملے 
۔ فلک کی طرح جفائیں نہ کیجیے ہر روز اسی قدر ہے یہ نعمت جو گاہ گاہ ملے 
۔ تمہارے حسن سے کیا رتبہ ماہ کنعاں کو وہی تو چاند جسے ڈوبنے کو چاہ ملے ۔
 سب اہل حشر جب اپنے کئے کو پائیں گے بڑا مزا ہو جو مجھ کو مرا گناہ ملے ۔
 کروں میں عرض اگر جان کی اماں پاؤں کہوں پتے کی اگر قہر سے پناہ ملے 
۔ یہ ہے مزے کی لڑائی یہ ہے مزے کا ملاپ کہ تجھ سے آنکھ لڑی اور پھر نگاہ ملے 
۔ ہوا ہے درد جگر سے یہ گھر مرا تاریک کہ موت ڈھونڈتی پھرتی ہے کوئی راہ ملے
 ۔ نہ اس کو صبر نہ تاثیر کا پتا یا رب جلا دیا ہے مجھے خاک میں یہ آہ ملے
 ۔ بلا سے دعوئ الفت نہ پیش کرتے ہم ملے ہوئے ہیں جو دشمن سے وہ گواہ ملے 
۔ ٹھہر نہ آہ مری جان لے کے چلتے ہو سفر کرے جو مسافر کو زاد راہ ملے 
۔ مثل سنی ہے کہ ملنے سے کوئی ملتا ہے ملو تو آنکھ ملے دل ملے نگاہ ملے 
۔ قمر کو جامہ شب تو بصر کو پردۂ چشم کئی لباس ترے نور کو سیاہ ملے ۔ 
اثر کہاں سے ملے جب یہ پھوٹ ہو باہم الگ الگ رہے دونوں نہ حرف آہ ملے ۔
 لگا کے پاؤں میں اس کے اڑاؤں قاصد کو اگر مجھے ترے تو سن کی گرد راہ ملے 
۔ اس انقلاب میں ڈھونڈو جو مشک اور کافور تو یہ سفید ملے اور وہ سیاہ ملے ۔
 نوید بخشش عصیاں اسے سنا دینا جو شرمسار کہیں داغؔ رو سیاہ ملے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داغؔ دہلویؒ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Hi guys this blog is only for poetry.