پیر، 26 اکتوبر، 2020

مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کی مانند مجبور کے ہونٹوں پہ


مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کی مانند

مجبور کے ہونٹوں پہ سوالات کی مانند


دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے

سیلاب سے برباد مکانات کی مانند


میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں

اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کی مانند


دل روز سجاتا ہوں میں دلہن کی طرح سے

غم روز چلے آتے ہیں بارات کی مانند


اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا نام تھا اس کا

جس شخص کو مانگا تھا مناجات کی مانند


کس درجہ مقدس ہے تیرے قرب کی خواہش

معصوم سے بچے کے خیالات کی مانند


اس شخص سے ملنا محسن میرا ممکن ہی نہیں ہے

میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند

اتوار، 11 اکتوبر، 2020

کب ہے وصالِ یار کی محرومیوں‌کا غم

 دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا 

سر سے جمالِ یار کا سایہ نہیں گیا 


کب ہے وصالِ یار کی محرومیوں‌کا غم 

یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا 


میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت 

مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا 


وہ شوخ آئینے کے برابر کھڑا رہا 

مجھ سے بھی آئینے کو ہٹایا نہیں گیا 


ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں 

ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا 


اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ 

اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا 


 سعداللہ شاہ

ہفتہ، 10 اکتوبر، 2020

دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا

 دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا 

یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا 


کمسن ہیں وہ ایسے انہیں ظالم کہوں کیسے 

معصوم پہ الزام لگایا نہیں جاتا 


آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رخ نے 

آئینے کو آئینہ دکھایا نہیں جاتا 


کیا چھیڑ ہے آنچل سے گلستاں میں صبا کی 

ان سے رخ روشن کو چھپایا نہیں جاتا 


حیرت ہے کہ مے خانے میں جاتا نہیں زاہد 

جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا 


اب موت ہی لے جائے تو لے جائے یہاں سے 

کوچے سے ترے ہم سے تو جایا نہیں جاتا 


اس درجہ پشیماں مرا قاتل ہے کہ اس سے 

محشر میں مرے سامنے آیا نہیں جاتا 


پرنمؔ غم الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ 

اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا


پرنم الہ آبادی

جمعرات، 8 اکتوبر، 2020

اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ

 اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ

تو میرے شہر میں آئے گا _تو چھا جائے گا
ہم قیامت بھی اٹھائیں گے تو ہوگا نہیں کچھ
تو فقط آنکھ اٹھائے گا _تو چھا جائے گا
پھول تو پھول ہیں وہ شخص اگر کانٹے
اپنے بالوں میں سجائے گا_ تو چھا جائے گا
یوں تو ہر رنگ ہی سجتا ھے برابر اس پر
سرخ پوشاک میں آئے گا _تو چھا جائے گا
جس مصور کی نہیں بکتی کوئی بھی تصویر
تیری تصویر بناۓ گا_ تو چھا جائے گا
رحمان فارس

اتوار، 4 اکتوبر، 2020

ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

 ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے

 

یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے

مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے


جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج

اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے


گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے

بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے


لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگِ ساحِل پر

بہت دِنوں سے سمندر اُداس رہتا ہے


میں وحشتوں کےسفرمیں بھی، ہُوں کہاں تنہا

یہی گماں ہے کوئی آس پاس رہتا ہے




وہ فاصلوں میں بھی رکھتا ہے رنگ قُربت کے

نظر سے دُور سہی، دِل کے پاس رہتا ہے


جب اُن سے گفتگو کرتا ہے کوئی بھی اعجاز !

اِک اِلتماس، پسِ اِلتماس رہتا ہے


اعجاز رحمانی