منگل، 19 جنوری، 2021

حضور آپ کا بھی احترام کرتا چلوں

 حضور آپ کا بھی احترام کرتا چلوں

ادھر سے گزرا تھا سوچا سلام کرتا چلوں.. 


نگاہ و دل کی یہی آخری تمنّا ہے

تمہاری زُلف کے سائے ميں شام کرتا چلوں.. 


انہيں يہ ضِد کہ مجھے ديکھ کر کسی کو نہ ديکھ

ميرا يہ شوق کہ سب سے کلام کرتا چلوں.. 


يہ ميرے خوابوں کی دُنيا نہيں سہی، ليکن

اب آ گيا ہوں تو دو دن قيام کرتا چلوں.. 


تمہارے حُسن سے جاگے تمام ہنگامے

ميں دو ہی لفظوں ميں قِصّہ تمام کرتا چلوں.. 


ميرے کلام کی شاداب سادگی اچھی

عوام سن کے مزے ليں ميں نام کرتا چلوں.. 


شاداب لاہوری😍

جمعہ، 1 جنوری، 2021

باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کر کے

 باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کر کے

خود بھی رویا وہ بہت ہم سے کنارہ کر کے


سوچتا رہتا ہوں تنہائی میں انجامِ خلوص

پِھر اُسی جُرمِ محبت کو دوبارہ کر کے


جگمگا دی ہیں تیرے شہر کی گلیاں میں نے

اپنے ہر اشک کو پلکوں پہ ستارہ کر کے


دیکھ لیتے ہیں چلو حوصلہ اپنے دل کا

اور کچھ روز تیرے ساتھ گزارا کر کے


ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں

دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارا کر کے

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا

 ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا

زندہ ہیں کتنے لوگ محبت کئے بغیر


گزرے دنوں میں جو کبھی گونجے تھے قہقہے

اب اپنے اختیار میں وہ بھی نہیں رہے

قسمت میں رہ گئی ہیں جو آہیں تو کیا ہوا

صدمہ یہ جھیلنا ہے شکا یت کئے بغیر


وہ سامنے بھی ہوں تو نہ کھولیں گے ہم زباں 

لکھی ہے اس کے چہرے پہ اپنی ہی داستاں 

اُس کو ترس گئی ہیں یہ باہیں تو کیا ہوا 

وہ لوٹ جائے ہم پہ عنایت کئے بغیر 


پہلے قریب تھا کوئی اب دوریا ں بھی ہیں

انسان کے نصیب میں مجبوریاں بھی ہیں

اپنی بدل چکا ہے وہ راہیں تو کیا ہوا

ہم چپ رہیں گے اسکو ملامت کئے بغیر


زندہ ہیں کتنے لوگ محبت کئے بغیر💔💔

اتوار، 13 دسمبر، 2020

دسمبر مرد جیسا ہے

 دسمبر مرد جیسا ہے 

یہ ایسے فرد جیسا ہے 

جو سب کے بیچ رہ کر بھی 

کسی سے کچھ نہ کہ کر بھی

خزاں کا درد سہھ کر بھی

 کسی چٹان کی مانند

کھڑا ہے مستقل ایسے 

نہ کوئ درد ہو جیسے

دکھاوے میں ہے یخبستہ

مگر پردے میں یے ہنستا

مناؤ تم سیاہ دن

یا بولو الوداع اسکو

نہ اسکو فرق پڑتا  تھا

نہ اسکو فرق پڑتا ہے 

اسے جو مرضی کہ ڈالو

یہ اپنی مرضی کرتا  ہے۔ ۔۔۔

اتوار، 8 نومبر، 2020

گئے دنوں کا سُراغ لے کر

گئے دنوں کا سُراغ لے کر 
کدھر سے آیا کدھر گیا وہ  
عجیب مانوس اجنبی تھا 
مجھے تو حیران کر گیا وہ 

بس ایک موتی سی چَھب دِکھا کر 
بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر 
ستارۂ شام بن کے آیا 
برنگِ خوابِ سَحر گیا وہ 

خوشی کی رُت ھو کہ غم کا موسم 
نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم 
وہ بُوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں 
میرے تو دِل میں اتُر گیا وہ 

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا 
نہ فرصتوں کی اُداس بَرکھا 
یوں ھی ذرا سی کسک ھے دل میں 
جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ 

کچھ اب سنبھلنے لگی ھے جاں بھی 
بدل چلا رنگِ آسماں بھی 
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ھے 
جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ 

بس ایک منزل ھے بوالہوس کی 
ھزار رستے ھیں اھلِ دل کے 
یہی تو ھے فرق مجھ میں اُس میں 
گزر گیا میں ، ٹھہر گیا وہ 

شکستہ پا راہ میں کھڑا ھُوں 
گئے دنوں کو بلا رھا ھُوں 
جو قافلہ میرا ھم سفر تھا 
مثالِ گرد سفر گیا وہ 

میرا تو خُوں ھو گیا ھے پانی 
ستم گروں کی پلک نہ بھیگی 
جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے 
نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ 

وہ مئے کدے کو جگانے والا 
وہ رات کی نیند اڑانے والا 
یہ آج کیا اُس کے جی میں آئی 
کہ شام ھوتے ھی گھر گیا وہ 

وہ ھجر کی رات کا ستارہ 
وہ ھم نفس ھم سخن ھمارا 
سَدا رھے اُس کا نام پیارا 
سُنا ھے کل رات مَر گیا وہ 

وہ جس کے شانے پہ ھاتھ رکھ کر 
سفر کیا تُو نے منزلوں کا 
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج 
سر جُھکائے گزر گیا وہ 

وہ رات کا بے نَوا مسافر 
وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ 
تیری گلی تک تو ھم نے دیکھا تھا 
پھر نہ جانے کدھر گیا وہ   

"ناصر کاظمی".....

پیر، 26 اکتوبر، 2020

مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کی مانند مجبور کے ہونٹوں پہ


مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کی مانند

مجبور کے ہونٹوں پہ سوالات کی مانند


دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے

سیلاب سے برباد مکانات کی مانند


میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں

اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کی مانند


دل روز سجاتا ہوں میں دلہن کی طرح سے

غم روز چلے آتے ہیں بارات کی مانند


اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا نام تھا اس کا

جس شخص کو مانگا تھا مناجات کی مانند


کس درجہ مقدس ہے تیرے قرب کی خواہش

معصوم سے بچے کے خیالات کی مانند


اس شخص سے ملنا محسن میرا ممکن ہی نہیں ہے

میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند

اتوار، 11 اکتوبر، 2020

کب ہے وصالِ یار کی محرومیوں‌کا غم

 دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا 

سر سے جمالِ یار کا سایہ نہیں گیا 


کب ہے وصالِ یار کی محرومیوں‌کا غم 

یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا 


میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت 

مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا 


وہ شوخ آئینے کے برابر کھڑا رہا 

مجھ سے بھی آئینے کو ہٹایا نہیں گیا 


ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں 

ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا 


اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ 

اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا 


 سعداللہ شاہ

ہفتہ، 10 اکتوبر، 2020

دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا

 دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا 

یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا 


کمسن ہیں وہ ایسے انہیں ظالم کہوں کیسے 

معصوم پہ الزام لگایا نہیں جاتا 


آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رخ نے 

آئینے کو آئینہ دکھایا نہیں جاتا 


کیا چھیڑ ہے آنچل سے گلستاں میں صبا کی 

ان سے رخ روشن کو چھپایا نہیں جاتا 


حیرت ہے کہ مے خانے میں جاتا نہیں زاہد 

جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا 


اب موت ہی لے جائے تو لے جائے یہاں سے 

کوچے سے ترے ہم سے تو جایا نہیں جاتا 


اس درجہ پشیماں مرا قاتل ہے کہ اس سے 

محشر میں مرے سامنے آیا نہیں جاتا 


پرنمؔ غم الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ 

اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا


پرنم الہ آبادی

جمعرات، 8 اکتوبر، 2020

اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ

 اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ

تو میرے شہر میں آئے گا _تو چھا جائے گا
ہم قیامت بھی اٹھائیں گے تو ہوگا نہیں کچھ
تو فقط آنکھ اٹھائے گا _تو چھا جائے گا
پھول تو پھول ہیں وہ شخص اگر کانٹے
اپنے بالوں میں سجائے گا_ تو چھا جائے گا
یوں تو ہر رنگ ہی سجتا ھے برابر اس پر
سرخ پوشاک میں آئے گا _تو چھا جائے گا
جس مصور کی نہیں بکتی کوئی بھی تصویر
تیری تصویر بناۓ گا_ تو چھا جائے گا
رحمان فارس

اتوار، 4 اکتوبر، 2020

ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

 ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے

 

یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے

مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے


جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج

اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے


گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے

بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے


لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگِ ساحِل پر

بہت دِنوں سے سمندر اُداس رہتا ہے


میں وحشتوں کےسفرمیں بھی، ہُوں کہاں تنہا

یہی گماں ہے کوئی آس پاس رہتا ہے




وہ فاصلوں میں بھی رکھتا ہے رنگ قُربت کے

نظر سے دُور سہی، دِل کے پاس رہتا ہے


جب اُن سے گفتگو کرتا ہے کوئی بھی اعجاز !

اِک اِلتماس، پسِ اِلتماس رہتا ہے


اعجاز رحمانی