
احباب! اُداس poetry collection بلاگ کا بنیادی مقصد اردو شاعری کی اردو رسم الخط میں ترویج کر کے اسے موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنانا ہے۔ آپ میں سے جو احباب اپنی شاعری/کلام کو بلاگ کی زینت بنوانا چاہیں، وہ مجھ سے رابطہ کر کے اپنا کلام بذریعہ ای میل بھجوا سکتے ہیں، دس یا اس سے زائد غزلیات و منظومات بھجوانے والے شعراء و شاعرات کے نام سے ان کا ایک الگ سے زمرہ بھی بنا دیا جائے گا
اتوار، 8 نومبر، 2020
گئے دنوں کا سُراغ لے کر
پیر، 26 اکتوبر، 2020
مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کی مانند مجبور کے ہونٹوں پہ
مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کی مانند
مجبور کے ہونٹوں پہ سوالات کی مانند
دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے
سیلاب سے برباد مکانات کی مانند
میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں
اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کی مانند
دل روز سجاتا ہوں میں دلہن کی طرح سے
غم روز چلے آتے ہیں بارات کی مانند
اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا نام تھا اس کا
جس شخص کو مانگا تھا مناجات کی مانند
کس درجہ مقدس ہے تیرے قرب کی خواہش
معصوم سے بچے کے خیالات کی مانند
اس شخص سے ملنا محسن میرا ممکن ہی نہیں ہے
میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند
اتوار، 11 اکتوبر، 2020
کب ہے وصالِ یار کی محرومیوںکا غم
دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا
سر سے جمالِ یار کا سایہ نہیں گیا
کب ہے وصالِ یار کی محرومیوںکا غم
یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا
میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت
مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا
وہ شوخ آئینے کے برابر کھڑا رہا
مجھ سے بھی آئینے کو ہٹایا نہیں گیا
ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں
ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا
اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ
اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا
سعداللہ شاہ
ہفتہ، 10 اکتوبر، 2020
دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا
دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا
یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا
کمسن ہیں وہ ایسے انہیں ظالم کہوں کیسے
معصوم پہ الزام لگایا نہیں جاتا
آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رخ نے
آئینے کو آئینہ دکھایا نہیں جاتا
کیا چھیڑ ہے آنچل سے گلستاں میں صبا کی
ان سے رخ روشن کو چھپایا نہیں جاتا
حیرت ہے کہ مے خانے میں جاتا نہیں زاہد
جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا
اب موت ہی لے جائے تو لے جائے یہاں سے
کوچے سے ترے ہم سے تو جایا نہیں جاتا
اس درجہ پشیماں مرا قاتل ہے کہ اس سے
محشر میں مرے سامنے آیا نہیں جاتا
پرنمؔ غم الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ
اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا
پرنم الہ آبادی
جمعرات، 8 اکتوبر، 2020
اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ
اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ
اتوار، 4 اکتوبر، 2020
ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے
ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے
یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے
یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے
مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج
اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے
گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے
بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے
لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگِ ساحِل پر
بہت دِنوں سے سمندر اُداس رہتا ہے
میں وحشتوں کےسفرمیں بھی، ہُوں کہاں تنہا
یہی گماں ہے کوئی آس پاس رہتا ہے
وہ فاصلوں میں بھی رکھتا ہے رنگ قُربت کے
نظر سے دُور سہی، دِل کے پاس رہتا ہے
جب اُن سے گفتگو کرتا ہے کوئی بھی اعجاز !
اِک اِلتماس، پسِ اِلتماس رہتا ہے
اعجاز رحمانی
ہفتہ، 26 ستمبر، 2020
نہ نصیب ہو تجھے ہنسنا، تیرے دل میں درد اٹھا
یہ دعا ہے آتشِ عشق میں تو بھی میری طرح جلا کرے
نہ نصیب ہو تجھے ہنسنا، تیرے دل میں درد اٹھا کرے
زلفیں کھولے اور چشم تر، تیرے لب پہ نالۂ سوزگر
تو میری تلاش میں دربدر لئے دل کو اپنے پھرا کرے
تو بھی چوٹ کھائے او بے وفا، آئے دل دکھانے کا پھر مزا
کرے آہ و زاریاں درد، مجھے بے وفا تو کہا کرے
رہے نامراد رقیب تو، نہ خدا دکھائے تجھے خوشیاں
نہ نصیب شربت دل ہو، سدا زہرِ غم تو پیا کرے
تجھے مرض ہو تو ایسا ہو، جو دنیا میں لاعلاج ہو
تیری موت تیرا شباب ہو، تو تڑپ تڑپ کے جیا کرے
تیرے سامنے تیرا گھر جلے، تیرا بس چلے نہ بجھا سکے
تیرے منہ سے نکلے یہی دعا کہ نہ گھر کسی کا جلا کرے
تجھے میرے ہی سے خلش رہے، تجھے میری ہی تپش رہے
جیسے تو نے میرا جلایا دل، ویسے تیرا بھی دل جلا کرے
جو کسی کے دل کو دکھائے گا، وہ ضرر ضرور اٹھائے گا
وہ سزا زمانے سے پائے گا، جو کسی سے مل کر دغا کرے
تیرا شوق مجھ سے ہو پیکرانہ، تیری آرزوئیں بھی ہوں جوان
مگر عین عہدِ بہار میں، لٹے باغ تیرا خدا کرے
خدا کرے آئے وہ بھی دن، تجھے چین آئے نہ مجھ بن
تو گلے ملے، میں پرے ہٹوں، میری منتیں تو کیا کرے
(جگر مراد آبادی)
💔💔
جمعہ، 25 ستمبر، 2020
اگر تعلق پہ برف ایسے جمی رہے
اگر تعلق پہ برف ایسے جمی رہے گی
ہمیں تمہاری، تمہیں ہمہاری کمی رہے گی
مرے لہو میں بغاوتوں کا رچاؤ سا ہے
مری ہمیشہ صلیب سے ہمدمی رہے گی
سمے کا دھارا سفید روئی گرا رہا ہے
میں سوچتا ہوں وہ زلف کیا ریشمی رہے گی!!!!!
ہمیں مکمل خوشی کبھی نہ نصیب ہوگی
ہماری قسمت میں ہلکی پھلکی غمی رہے گی
اے میرے بارش کے موسموں میں بچھڑنے والے
بتا ان آنکھوں میں کب تلک یوں نمی رہے گی؟
میں اپنے قدموں پہ اپنے دم سے کھڑا ہوا ہوں
ان آندھیوں کی تو مجھ سے یہ برہمی رہے گی
پکڑ کے رکھا ہوا ہے جب تک یوں ہاتھ تم نے
یہ سانس میری تھمی ہوئی ہے تھمی رہے گی
آزاد حسین آزاد
محبت کے اصولوں سے
محبت کے اصولوں سے
کبھی الجھا نہیں کرتے
یہ الحاد حقیقت ھے،
سنو ایسا نہیں کرتے
بہت کم ظرف لوگوں سے
بہت محتاط رھتے ھیں
بنا سوچے سمندر میں
یونہی اترا نہیں کرتے
تیری ساقی سخاوت پہ میں
سانسیں وار دوں لیکن
میرے کامل کا فرماں ھے
کبھی بہکا نہیں کرتے
محبت سے ضروری ھے
غم دنیا کا افسانہ
محبت کے حسیں قصوں میں
کھو جایا نہیں کرتے
جسے دیکھو ،
اسے سوچو ،
جسے سوچو ،
اسے پاؤ
جسے نہ پا سکو...
اسکو کبھی دیکھا نہیں کرتے
مجھے تائب ،
وفا بردار لوگوں سے شکایت ھے
بہت تنقید کرتے ھیں ،
مگر اچھا نہیں کرتے....!!
ہم لوگ بھی زندہ ہیں