اتوار، 13 دسمبر، 2020

دسمبر مرد جیسا ہے

 دسمبر مرد جیسا ہے 

یہ ایسے فرد جیسا ہے 

جو سب کے بیچ رہ کر بھی 

کسی سے کچھ نہ کہ کر بھی

خزاں کا درد سہھ کر بھی

 کسی چٹان کی مانند

کھڑا ہے مستقل ایسے 

نہ کوئ درد ہو جیسے

دکھاوے میں ہے یخبستہ

مگر پردے میں یے ہنستا

مناؤ تم سیاہ دن

یا بولو الوداع اسکو

نہ اسکو فرق پڑتا  تھا

نہ اسکو فرق پڑتا ہے 

اسے جو مرضی کہ ڈالو

یہ اپنی مرضی کرتا  ہے۔ ۔۔۔

اتوار، 8 نومبر، 2020

گئے دنوں کا سُراغ لے کر

گئے دنوں کا سُراغ لے کر 
کدھر سے آیا کدھر گیا وہ  
عجیب مانوس اجنبی تھا 
مجھے تو حیران کر گیا وہ 

بس ایک موتی سی چَھب دِکھا کر 
بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر 
ستارۂ شام بن کے آیا 
برنگِ خوابِ سَحر گیا وہ 

خوشی کی رُت ھو کہ غم کا موسم 
نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم 
وہ بُوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں 
میرے تو دِل میں اتُر گیا وہ 

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا 
نہ فرصتوں کی اُداس بَرکھا 
یوں ھی ذرا سی کسک ھے دل میں 
جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ 

کچھ اب سنبھلنے لگی ھے جاں بھی 
بدل چلا رنگِ آسماں بھی 
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ھے 
جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ 

بس ایک منزل ھے بوالہوس کی 
ھزار رستے ھیں اھلِ دل کے 
یہی تو ھے فرق مجھ میں اُس میں 
گزر گیا میں ، ٹھہر گیا وہ 

شکستہ پا راہ میں کھڑا ھُوں 
گئے دنوں کو بلا رھا ھُوں 
جو قافلہ میرا ھم سفر تھا 
مثالِ گرد سفر گیا وہ 

میرا تو خُوں ھو گیا ھے پانی 
ستم گروں کی پلک نہ بھیگی 
جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے 
نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ 

وہ مئے کدے کو جگانے والا 
وہ رات کی نیند اڑانے والا 
یہ آج کیا اُس کے جی میں آئی 
کہ شام ھوتے ھی گھر گیا وہ 

وہ ھجر کی رات کا ستارہ 
وہ ھم نفس ھم سخن ھمارا 
سَدا رھے اُس کا نام پیارا 
سُنا ھے کل رات مَر گیا وہ 

وہ جس کے شانے پہ ھاتھ رکھ کر 
سفر کیا تُو نے منزلوں کا 
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج 
سر جُھکائے گزر گیا وہ 

وہ رات کا بے نَوا مسافر 
وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصرؔ 
تیری گلی تک تو ھم نے دیکھا تھا 
پھر نہ جانے کدھر گیا وہ   

"ناصر کاظمی".....

پیر، 26 اکتوبر، 2020

مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کی مانند مجبور کے ہونٹوں پہ


مقروض کے بگڑے ہوئے حالات کی مانند

مجبور کے ہونٹوں پہ سوالات کی مانند


دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے

سیلاب سے برباد مکانات کی مانند


میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں

اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کی مانند


دل روز سجاتا ہوں میں دلہن کی طرح سے

غم روز چلے آتے ہیں بارات کی مانند


اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا نام تھا اس کا

جس شخص کو مانگا تھا مناجات کی مانند


کس درجہ مقدس ہے تیرے قرب کی خواہش

معصوم سے بچے کے خیالات کی مانند


اس شخص سے ملنا محسن میرا ممکن ہی نہیں ہے

میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند

اتوار، 11 اکتوبر، 2020

کب ہے وصالِ یار کی محرومیوں‌کا غم

 دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا 

سر سے جمالِ یار کا سایہ نہیں گیا 


کب ہے وصالِ یار کی محرومیوں‌کا غم 

یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا 


میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت 

مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا 


وہ شوخ آئینے کے برابر کھڑا رہا 

مجھ سے بھی آئینے کو ہٹایا نہیں گیا 


ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں 

ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا 


اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ 

اے سعد مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا 


 سعداللہ شاہ

ہفتہ، 10 اکتوبر، 2020

دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا

 دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا 

یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا 


کمسن ہیں وہ ایسے انہیں ظالم کہوں کیسے 

معصوم پہ الزام لگایا نہیں جاتا 


آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رخ نے 

آئینے کو آئینہ دکھایا نہیں جاتا 


کیا چھیڑ ہے آنچل سے گلستاں میں صبا کی 

ان سے رخ روشن کو چھپایا نہیں جاتا 


حیرت ہے کہ مے خانے میں جاتا نہیں زاہد 

جنت میں مسلمان سے جایا نہیں جاتا 


اب موت ہی لے جائے تو لے جائے یہاں سے 

کوچے سے ترے ہم سے تو جایا نہیں جاتا 


اس درجہ پشیماں مرا قاتل ہے کہ اس سے 

محشر میں مرے سامنے آیا نہیں جاتا 


پرنمؔ غم الفت میں تم آنسو نہ بہاؤ 

اس آگ کو پانی سے بجھایا نہیں جاتا


پرنم الہ آبادی

جمعرات، 8 اکتوبر، 2020

اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ

 اچھی آنکھوں کے پجاری ہیں میرے شہر کے لوگ

تو میرے شہر میں آئے گا _تو چھا جائے گا
ہم قیامت بھی اٹھائیں گے تو ہوگا نہیں کچھ
تو فقط آنکھ اٹھائے گا _تو چھا جائے گا
پھول تو پھول ہیں وہ شخص اگر کانٹے
اپنے بالوں میں سجائے گا_ تو چھا جائے گا
یوں تو ہر رنگ ہی سجتا ھے برابر اس پر
سرخ پوشاک میں آئے گا _تو چھا جائے گا
جس مصور کی نہیں بکتی کوئی بھی تصویر
تیری تصویر بناۓ گا_ تو چھا جائے گا
رحمان فارس

اتوار، 4 اکتوبر، 2020

ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

 ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے

یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے

 

یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے

مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے


جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج

اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے


گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے

بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے


لکھی ہے کس نے یہ تحریر ریگِ ساحِل پر

بہت دِنوں سے سمندر اُداس رہتا ہے


میں وحشتوں کےسفرمیں بھی، ہُوں کہاں تنہا

یہی گماں ہے کوئی آس پاس رہتا ہے




وہ فاصلوں میں بھی رکھتا ہے رنگ قُربت کے

نظر سے دُور سہی، دِل کے پاس رہتا ہے


جب اُن سے گفتگو کرتا ہے کوئی بھی اعجاز !

اِک اِلتماس، پسِ اِلتماس رہتا ہے


اعجاز رحمانی

ہفتہ، 26 ستمبر، 2020

نہ نصیب ہو تجھے ہنسنا، تیرے دل میں درد اٹھا

 یہ دعا ہے آتشِ عشق میں تو بھی میری طرح جلا کرے


نہ نصیب ہو تجھے ہنسنا، تیرے دل میں درد اٹھا کرے


زلفیں کھولے اور چشم تر، تیرے لب پہ نالۂ سوزگر


تو میری تلاش میں دربدر لئے دل کو اپنے پھرا کرے


تو بھی چوٹ کھائے او بے وفا، آئے دل دکھانے کا پھر مزا


کرے آہ و زاریاں درد، مجھے بے وفا تو کہا کرے


رہے نامراد رقیب تو، نہ خدا دکھائے تجھے خوشیاں


نہ نصیب شربت دل ہو، سدا زہرِ غم تو پیا کرے


تجھے مرض ہو تو ایسا ہو، جو دنیا میں لاعلاج ہو


تیری موت تیرا شباب ہو، تو تڑپ تڑپ کے جیا کرے


تیرے سامنے تیرا گھر جلے، تیرا بس چلے نہ بجھا سکے


تیرے منہ سے نکلے یہی دعا کہ نہ گھر کسی کا جلا کرے


تجھے میرے ہی سے خلش رہے، تجھے میری ہی تپش رہے


جیسے تو نے میرا جلایا دل، ویسے تیرا بھی دل جلا کرے


جو کسی کے دل کو دکھائے گا، وہ ضرر ضرور اٹھائے گا


وہ سزا زمانے سے پائے گا، جو کسی سے مل کر دغا کرے


تیرا شوق مجھ سے ہو پیکرانہ، تیری آرزوئیں بھی ہوں جوان


مگر عین عہدِ بہار میں، لٹے باغ تیرا خدا کرے


خدا کرے آئے وہ بھی دن، تجھے چین آئے نہ مجھ بن


تو گلے ملے، میں پرے ہٹوں، میری منتیں تو کیا کرے


(جگر مراد آبادی)

💔💔

جمعہ، 25 ستمبر، 2020

اگر تعلق پہ برف ایسے جمی رہے


اگر تعلق پہ برف ایسے جمی رہے گی

 ہمیں تمہاری، تمہیں ہمہاری کمی رہے گی


مرے لہو میں بغاوتوں کا رچاؤ سا ہے

مری ہمیشہ صلیب سے ہمدمی رہے گی


سمے کا دھارا سفید روئی گرا رہا ہے

میں سوچتا ہوں وہ زلف کیا ریشمی رہے گی!!!!! 


ہمیں مکمل خوشی کبھی نہ نصیب ہوگی

ہماری قسمت میں ہلکی پھلکی غمی رہے گی


اے میرے بارش کے موسموں میں بچھڑنے والے

بتا ان آنکھوں میں کب تلک یوں نمی رہے گی؟ 


میں اپنے قدموں پہ اپنے دم سے کھڑا ہوا ہوں

ان آندھیوں کی تو مجھ سے یہ برہمی رہے گی


پکڑ کے رکھا ہوا ہے جب تک یوں ہاتھ تم نے

یہ سانس میری تھمی ہوئی ہے تھمی رہے گی


آزاد حسین آزاد

محبت کے اصولوں سے

 محبت کے اصولوں سے

کبھی الجھا نہیں کرتے

یہ الحاد حقیقت ھے،

سنو ایسا نہیں کرتے

بہت کم ظرف لوگوں سے

بہت محتاط رھتے ھیں

بنا سوچے سمندر میں

یونہی اترا نہیں کرتے

تیری ساقی سخاوت پہ میں

سانسیں وار دوں لیکن

میرے کامل کا فرماں ھے

کبھی بہکا نہیں کرتے

محبت سے ضروری ھے

غم دنیا کا افسانہ

محبت کے حسیں قصوں میں

کھو جایا نہیں کرتے

جسے دیکھو ،

اسے سوچو ،

جسے سوچو ،

اسے پاؤ

جسے نہ پا سکو...

اسکو کبھی دیکھا نہیں کرتے

مجھے تائب ،

وفا بردار لوگوں سے شکایت ھے

بہت تنقید کرتے ھیں ،

مگر اچھا نہیں کرتے....!!