منگل، 25 اگست، 2020

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


  وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو    

  وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر                             

        
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو                                   

  
وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں                

وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو          


کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو               
وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو                


ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم                            
گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو                              


کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی           
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو         


کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی                                  
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو                                


سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی   


تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو       

  
وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا         


وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مومن خان مومن

پیر، 24 اگست، 2020

خدا کے بندے میں رو پڑوں گا اگر کسی دن دوبارہ مجھ سے

 خدا کے بندے میں رو پڑوں گا اگر کسی دن دوبارہ مجھ سے

 محبتوں کا سوال پوچھا زوال پوچھا میں رو پڑوں گا 

 میں اس کے دل میں رہا ہوں لیکن اب اس کے دل سے نکل چکا ہوں 
وہ اپنی رہ پر چلا گیا ہے میں اپنی رہ پر چلا گیا ہوں
 اب اس سے زیادہ کوئی بھی مجھ سے سوال پوچھا میں رو پڑوں گا
 تھا میری آنکھوں کا جو بھی تارا سبھی سے زیادہ تھا مجھ کو پیارا 
تھا مری چلمن کا اک ستارا وہ مجھ سے کیسے بچھڑ گیا ہے کمال پوچھا میں رو پڑوں گا 
.. خدارا اب بھی ہے میری چاہت وہ مجھ سے چاہے بچھڑ گیا ہے 
خدارا سن لے کبھی بھی اس پر زوال آیا میں رو پڑوں گا 
.... ابھی میں خوش ہوں ابھی وہ بھولی ہوئی ہے مجھ کو
 مگر اچانک کبھی جو اس کا خیال آیا میں رو پڑوں گا 
..... وہ اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اور اس کے چہرے کی روشنی پر
 کبھی خدایا جو ان اندھیروں کا جال آیامیں رو پڑوں گا

ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ

ﭼﻠﻮ ﭘﮭﺮﭼﺎﮰ ﭘﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ...
. ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺷﺎﻣﻮﮞ ..
. ﺑﺪﻥ ﺟﺐ ﺗﮭﮏ ﺳﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ کہتا ﮨﻮﮞ، .
..ﭼﻠﻮ ﭘﮭﺮ ﭼﺎﮰ ﭘﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ .....
ﻣﮕﺮﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﮎ ﺳﭻ ﮨﮯ .
... ﺍﮐﯿﻠﺍ ﭘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺍ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺍﮎ ﮐﭗ .
... ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺗﻢ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﻮﮔﮯ ﻣﮕﺮ ﯾﻮﮞ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮ,.... 
ﺑﮩﺎﻧﮧ ﭼﺎﮰ ﮐﺎ ﻟﮯ ﮐﺮ، .....
ﭼﺮﺍ ﻟﯿﺘﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ..... 
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭘﻞ

سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے با وضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے

سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے 
 با وضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے
 میں ترے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں 
 کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے 
 مجھ میں رہتا ہے کوئی دشمن جانی میرا 
 خود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے 
 بت بھی رکھے ہیں نمازیں بھی ادا ہوتی ہیں 
 دل میرا دل نہیں اللہ کا گھر لگتا ہے

 زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے
 زمیں پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
 بشیر بدر💔💔

زندگی پُھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے

زندگی پُھول ہے، خوش
زندگی پُھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے .......
'''زندگی، گردشِ حالات بھی ہو سکتی ہے'''''                   
   بُھول جاؤ گے، تو پھر مات بھی ہوسکتی ہے
 ...... چال چلتے ہُوئے، شطرنج کی بازی کے اُصول !,,,,

کچھ لمحے تیرے خیال میں جینے تھے

کچھ لمحے تیرے خیال میں جینے تھے.
 

 کچھ لمحے تیرے وصال میں جینے تھے 

 زندگی کے خوبصورت پل ہمیں بے وفائی کے ملال میں جینے تھے 
 ہم دیوانوں نے یہ بہار کے دن زندگی ....تیرے ہر سال میں جینے تھے
 میرا جواب سنے بغیر چلا گیا جو کئی دن اس سوال میں جینے تھے
........ آگ کی لپٹ میں آگیا گھر میرا ورنہ 
اور کچھ دن پڑتال میں جینے تھے 
 پلٹ آتا اگر وہ میرے شہر میں چار دن
. ہم نے دھمال میں جینے تھے
 ....اس عشق میں سب خاک ہوا ورنہ سربلندی کے دن .....
جلال میں جینے تھے

 محمد شعیب

بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے

بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے فقیر ہیں کوئی چلو خدا کی راہ ملے 
۔ کہاں تھے رات کو ہم سے ذرا نگاہ ملے تلاش میں ہو کہ جھوٹا کوئی گواہ ملے
 ۔ قریب مے کدہ مجھ کو جو خانقاہ ملے گلے ثواب کے کیا کیا مرے گناہ ملے 
۔ وہ روز حشر ہے دنیا نہیں کہ راہ ملے کہاں چھپوگے جو دو چار داد خواہ ملے
 ۔ مری خرابی میں آ کر وہ چوکڑی بھولے کہ پھر نہ خانہ خرابی کو گھر کی راہ ملے 
۔ ترا دل آئے کسی پر تو عرش ہل جائے اثر تلاش میں ہے اس طرح کی آہ ملے 
۔ تمہارے کوچے میں ہر روز وہ قیامت ہے کہ سایہ ڈھونڈ رہا ہے کہیں پناہ ملے 
۔ ترا غرور سمایا ہے اس قدر دل میں نگاہ بھی نہ ملاؤں جو بادشاہ ملے 
۔ سر برہنہ مجنوں پہ آشیاں ہے تاج نہ رکھے سر پہ جو فغفور کی کلاہ ملے 
۔ فلک کی طرح جفائیں نہ کیجیے ہر روز اسی قدر ہے یہ نعمت جو گاہ گاہ ملے 
۔ تمہارے حسن سے کیا رتبہ ماہ کنعاں کو وہی تو چاند جسے ڈوبنے کو چاہ ملے ۔
 سب اہل حشر جب اپنے کئے کو پائیں گے بڑا مزا ہو جو مجھ کو مرا گناہ ملے ۔
 کروں میں عرض اگر جان کی اماں پاؤں کہوں پتے کی اگر قہر سے پناہ ملے 
۔ یہ ہے مزے کی لڑائی یہ ہے مزے کا ملاپ کہ تجھ سے آنکھ لڑی اور پھر نگاہ ملے 
۔ ہوا ہے درد جگر سے یہ گھر مرا تاریک کہ موت ڈھونڈتی پھرتی ہے کوئی راہ ملے
 ۔ نہ اس کو صبر نہ تاثیر کا پتا یا رب جلا دیا ہے مجھے خاک میں یہ آہ ملے
 ۔ بلا سے دعوئ الفت نہ پیش کرتے ہم ملے ہوئے ہیں جو دشمن سے وہ گواہ ملے 
۔ ٹھہر نہ آہ مری جان لے کے چلتے ہو سفر کرے جو مسافر کو زاد راہ ملے 
۔ مثل سنی ہے کہ ملنے سے کوئی ملتا ہے ملو تو آنکھ ملے دل ملے نگاہ ملے 
۔ قمر کو جامہ شب تو بصر کو پردۂ چشم کئی لباس ترے نور کو سیاہ ملے ۔ 
اثر کہاں سے ملے جب یہ پھوٹ ہو باہم الگ الگ رہے دونوں نہ حرف آہ ملے ۔
 لگا کے پاؤں میں اس کے اڑاؤں قاصد کو اگر مجھے ترے تو سن کی گرد راہ ملے 
۔ اس انقلاب میں ڈھونڈو جو مشک اور کافور تو یہ سفید ملے اور وہ سیاہ ملے ۔
 نوید بخشش عصیاں اسے سنا دینا جو شرمسار کہیں داغؔ رو سیاہ ملے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داغؔ دہلویؒ

اتوار، 23 اگست، 2020

عجب مذاق رَوا ہے' یہاں نظام کے ساتھ

عجب مذاق رَوا ہے'
 یہاں نظام کے ساتھ وہی یزید کے ساتھی ' 
وہی امام کے ساتھ میں رات اُلجھتا رہا 
' دِین اور دُنیا سے غزل کے شعر بھی کہتا رہا 
'سلام کے ساتھ سِتم تو یہ ہے کہ کوئی سمجھنے والا نہيں مرے سکوت کا مطلب 
...مرے کلام کے ساتھ یہ جھوٹ موٹ کے درویش
... پھر کہاں کُھلتے کہ میں شراب نہ رکھتا اگر طعام کے ساتھ 
 ضرور اس نے کوئی اِسم پڑھ کے پھونکا ہے 
لپٹ رہی ہیں جو شہزادیاں غلام کے ساتھ .........."
عمران عامی" Ajab mzaq rawa ha ' yahan nizam k sath Woe yazeed k sathi ' woe Imam k sath Maen raat ulajhta raha deen Aur dunya se Ghazal k shear b kehta raha slaam k sath Sitam tu ye ha k koi smajhne wala nain Mere skoot ka matlab' mere kalam k sath Ye jhot moot k darwaish phr kahan khulte K maen shrab na rakhta ahr tahem k sath Zaror us ne koi ism phar k phonka ha.... Lipat rahi hen jo shezadian ghulam k sath

بدھ، 19 اگست، 2020

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے 
کوئی کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے
 کوئی ثابت ہُوا سکونِ دل و جاں نہیں
 کہیں رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے
 کوئی ترکِ تعلقات کوئی مسئلہ نہیں 
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے
 کوئی دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی 
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی  
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب میرے 
خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی اے شخص 
اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے 
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے 
کوئی 
 ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں آخر
میرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی اک شخص
 کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی۔۔



 جون ایلیاء

منگل، 18 اگست، 2020

ہم لوگ بھی زندہ ہیں ذرا بول کے دیکھو

ہم لوگ بھی زندہ ہیں 
ذرا بول کے دیکھو خاموش کتابیں ہیں ذرا کھول کے دیکھو🌷 
 ہر شخص عقیدت سے نہ جھک جائے تو کہنا 
باتوں میں محبت کا شہد گھول کر تو دیکھو 
 ذرہ نظر آتے ہیں مگر کوہِ گراں ہیں ہم شک ہے تو دوست ہمیں تول کے دیکھو
🌷 پرکھے ہوئے موتی ہیں زمانے کو پتہ ہے ایسا کرو مٹی میں ہمیں رول کے دیکھو
 اچھے نظر آئیں گے ، برے بھی تمھیں فارسؔ🌷 آنکھوں سے تعصب کی گرہ کھول کے دیکھو