پیر، 24 اگست، 2020

ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ

ﭼﻠﻮ ﭘﮭﺮﭼﺎﮰ ﭘﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ...
. ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺷﺎﻣﻮﮞ ..
. ﺑﺪﻥ ﺟﺐ ﺗﮭﮏ ﺳﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﮯ کہتا ﮨﻮﮞ، .
..ﭼﻠﻮ ﭘﮭﺮ ﭼﺎﮰ ﭘﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ .....
ﻣﮕﺮﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﮎ ﺳﭻ ﮨﮯ .
... ﺍﮐﯿﻠﺍ ﭘﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺍ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﺍﮎ ﮐﭗ .
... ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺗﻢ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﻮﮔﮯ ﻣﮕﺮ ﯾﻮﮞ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮ,.... 
ﺑﮩﺎﻧﮧ ﭼﺎﮰ ﮐﺎ ﻟﮯ ﮐﺮ، .....
ﭼﺮﺍ ﻟﯿﺘﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ..... 
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺩﻭ ﭘﻞ

سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے با وضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے

سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے 
 با وضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے
 میں ترے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں 
 کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے 
 مجھ میں رہتا ہے کوئی دشمن جانی میرا 
 خود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے 
 بت بھی رکھے ہیں نمازیں بھی ادا ہوتی ہیں 
 دل میرا دل نہیں اللہ کا گھر لگتا ہے

 زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے
 زمیں پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
 بشیر بدر💔💔

زندگی پُھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے

زندگی پُھول ہے، خوش
زندگی پُھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے .......
'''زندگی، گردشِ حالات بھی ہو سکتی ہے'''''                   
   بُھول جاؤ گے، تو پھر مات بھی ہوسکتی ہے
 ...... چال چلتے ہُوئے، شطرنج کی بازی کے اُصول !,,,,

کچھ لمحے تیرے خیال میں جینے تھے

کچھ لمحے تیرے خیال میں جینے تھے.
 

 کچھ لمحے تیرے وصال میں جینے تھے 

 زندگی کے خوبصورت پل ہمیں بے وفائی کے ملال میں جینے تھے 
 ہم دیوانوں نے یہ بہار کے دن زندگی ....تیرے ہر سال میں جینے تھے
 میرا جواب سنے بغیر چلا گیا جو کئی دن اس سوال میں جینے تھے
........ آگ کی لپٹ میں آگیا گھر میرا ورنہ 
اور کچھ دن پڑتال میں جینے تھے 
 پلٹ آتا اگر وہ میرے شہر میں چار دن
. ہم نے دھمال میں جینے تھے
 ....اس عشق میں سب خاک ہوا ورنہ سربلندی کے دن .....
جلال میں جینے تھے

 محمد شعیب

بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے

بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے فقیر ہیں کوئی چلو خدا کی راہ ملے 
۔ کہاں تھے رات کو ہم سے ذرا نگاہ ملے تلاش میں ہو کہ جھوٹا کوئی گواہ ملے
 ۔ قریب مے کدہ مجھ کو جو خانقاہ ملے گلے ثواب کے کیا کیا مرے گناہ ملے 
۔ وہ روز حشر ہے دنیا نہیں کہ راہ ملے کہاں چھپوگے جو دو چار داد خواہ ملے
 ۔ مری خرابی میں آ کر وہ چوکڑی بھولے کہ پھر نہ خانہ خرابی کو گھر کی راہ ملے 
۔ ترا دل آئے کسی پر تو عرش ہل جائے اثر تلاش میں ہے اس طرح کی آہ ملے 
۔ تمہارے کوچے میں ہر روز وہ قیامت ہے کہ سایہ ڈھونڈ رہا ہے کہیں پناہ ملے 
۔ ترا غرور سمایا ہے اس قدر دل میں نگاہ بھی نہ ملاؤں جو بادشاہ ملے 
۔ سر برہنہ مجنوں پہ آشیاں ہے تاج نہ رکھے سر پہ جو فغفور کی کلاہ ملے 
۔ فلک کی طرح جفائیں نہ کیجیے ہر روز اسی قدر ہے یہ نعمت جو گاہ گاہ ملے 
۔ تمہارے حسن سے کیا رتبہ ماہ کنعاں کو وہی تو چاند جسے ڈوبنے کو چاہ ملے ۔
 سب اہل حشر جب اپنے کئے کو پائیں گے بڑا مزا ہو جو مجھ کو مرا گناہ ملے ۔
 کروں میں عرض اگر جان کی اماں پاؤں کہوں پتے کی اگر قہر سے پناہ ملے 
۔ یہ ہے مزے کی لڑائی یہ ہے مزے کا ملاپ کہ تجھ سے آنکھ لڑی اور پھر نگاہ ملے 
۔ ہوا ہے درد جگر سے یہ گھر مرا تاریک کہ موت ڈھونڈتی پھرتی ہے کوئی راہ ملے
 ۔ نہ اس کو صبر نہ تاثیر کا پتا یا رب جلا دیا ہے مجھے خاک میں یہ آہ ملے
 ۔ بلا سے دعوئ الفت نہ پیش کرتے ہم ملے ہوئے ہیں جو دشمن سے وہ گواہ ملے 
۔ ٹھہر نہ آہ مری جان لے کے چلتے ہو سفر کرے جو مسافر کو زاد راہ ملے 
۔ مثل سنی ہے کہ ملنے سے کوئی ملتا ہے ملو تو آنکھ ملے دل ملے نگاہ ملے 
۔ قمر کو جامہ شب تو بصر کو پردۂ چشم کئی لباس ترے نور کو سیاہ ملے ۔ 
اثر کہاں سے ملے جب یہ پھوٹ ہو باہم الگ الگ رہے دونوں نہ حرف آہ ملے ۔
 لگا کے پاؤں میں اس کے اڑاؤں قاصد کو اگر مجھے ترے تو سن کی گرد راہ ملے 
۔ اس انقلاب میں ڈھونڈو جو مشک اور کافور تو یہ سفید ملے اور وہ سیاہ ملے ۔
 نوید بخشش عصیاں اسے سنا دینا جو شرمسار کہیں داغؔ رو سیاہ ملے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ داغؔ دہلویؒ

اتوار، 23 اگست، 2020

عجب مذاق رَوا ہے' یہاں نظام کے ساتھ

عجب مذاق رَوا ہے'
 یہاں نظام کے ساتھ وہی یزید کے ساتھی ' 
وہی امام کے ساتھ میں رات اُلجھتا رہا 
' دِین اور دُنیا سے غزل کے شعر بھی کہتا رہا 
'سلام کے ساتھ سِتم تو یہ ہے کہ کوئی سمجھنے والا نہيں مرے سکوت کا مطلب 
...مرے کلام کے ساتھ یہ جھوٹ موٹ کے درویش
... پھر کہاں کُھلتے کہ میں شراب نہ رکھتا اگر طعام کے ساتھ 
 ضرور اس نے کوئی اِسم پڑھ کے پھونکا ہے 
لپٹ رہی ہیں جو شہزادیاں غلام کے ساتھ .........."
عمران عامی" Ajab mzaq rawa ha ' yahan nizam k sath Woe yazeed k sathi ' woe Imam k sath Maen raat ulajhta raha deen Aur dunya se Ghazal k shear b kehta raha slaam k sath Sitam tu ye ha k koi smajhne wala nain Mere skoot ka matlab' mere kalam k sath Ye jhot moot k darwaish phr kahan khulte K maen shrab na rakhta ahr tahem k sath Zaror us ne koi ism phar k phonka ha.... Lipat rahi hen jo shezadian ghulam k sath

بدھ، 19 اگست، 2020

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے 
کوئی کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے
 کوئی ثابت ہُوا سکونِ دل و جاں نہیں
 کہیں رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے
 کوئی ترکِ تعلقات کوئی مسئلہ نہیں 
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے
 کوئی دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی 
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی  
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب میرے 
خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی اے شخص 
اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے 
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے 
کوئی 
 ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں آخر
میرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی اک شخص
 کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی۔۔



 جون ایلیاء

منگل، 18 اگست، 2020

ہم لوگ بھی زندہ ہیں ذرا بول کے دیکھو

ہم لوگ بھی زندہ ہیں 
ذرا بول کے دیکھو خاموش کتابیں ہیں ذرا کھول کے دیکھو🌷 
 ہر شخص عقیدت سے نہ جھک جائے تو کہنا 
باتوں میں محبت کا شہد گھول کر تو دیکھو 
 ذرہ نظر آتے ہیں مگر کوہِ گراں ہیں ہم شک ہے تو دوست ہمیں تول کے دیکھو
🌷 پرکھے ہوئے موتی ہیں زمانے کو پتہ ہے ایسا کرو مٹی میں ہمیں رول کے دیکھو
 اچھے نظر آئیں گے ، برے بھی تمھیں فارسؔ🌷 آنکھوں سے تعصب کی گرہ کھول کے دیکھو

پیر، 3 اگست، 2020

کبھی ربھی رک گئے کبھی چل گئے ک گئے

کبھی رک گئے کبھی چل دیئے کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے یونہی عمر ساری گزار دی یونہی زندگی کے ستم سہے کبھی نیند میں کبھی ہوش میں وہ جہاں ملا اسے دیکھ کر نہ نظر ملی نہ زباں ہلی یونہی سر جھکا کر گزر گئے مجھے یاد ہے کبھی ایک تھے مگر آج ہم ہیں جدا جدا وہ جدا ہوئے تو سنور گئے ہم جدا ہوئے تو بکھر گئے کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی در بدر غم عاشقی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے کبھی چل دیئے کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے یونہی عمر ساری گزار دی یونہی زندگی کے ستم سہے کبھی نیند میں کبھی ہوش میں وہ جہاں ملا اسے دیکھ کر نہ نظر ملی نہ زباں ہلی یونہی سر جھکا کر گزر گئے مجھے یاد ہے کبھی ایک تھے مگر آج ہم ہیں جدا جدا وہ جدا ہوئے تو سنور گئے ہم جدا ہوئے تو بکھر گئے کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی در بدر غم عاشقی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے

مشکُوک ہے موسم، ابھی منسُوخ ہیں وعدے اِسی بے چارگی میں بال و پَر ترتیب دے لینا

"غزل" لیاقت علی عاصم بہت بکھرا ہُوا لگتا ہے گھر ترتیب دے لینا نہیں تو ساز و سامانِ سفر ترتیب دے لینا ابھی مشکُوک ہے موسم، ابھی منسُوخ ہیں وعدے اِسی بے چارگی میں بال و پَر ترتیب دے لینا تجسّس اور حیرت کو اگر ہم عَکس کرنا ہے تو خُود ہی آئنے کو توڑ کر ترتیب دے لینا یہی فُرصت کے دِن ہیں، حلقہء یاراں بھی ہے موقوُف بہت شامیں گَنوائیں، اب سَحر ترتیب دے لینا ہر اِک چہرہ یہاں کا، صُبح کے اخبار کے مانند اور اپنا کام، اپنی سی خبر ترتیب دے لینا بہت آسان لگتا تھا، بہت دُشوار تَر نِکلا کوئی مجمُوعہء عیب و ہُنر ترتیب دے لینا