ہفتہ، 27 جون، 2020

وتو مرا مول لگائے گا ۔۔

تو مرا مول لگائے گا ۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔ تجھے  علم بھی ہ
میں کہ انمول محبت ہوں ۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔ وفا نسب میرا

تجھ میں تو شر بھی ہے آفت بھی ہے رنگینی بھی
تو کے سیماب طبیعت ہے ۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔ جفا کسب تیرا

تیری آنکھیں ، تیری باتیں ۔۔۔,۔۔۔ تیرا دلکش لہجہ
ایک اک پل تیری قربت کا ۔۔۔۔۔۔ بنا کرب میرا

تو  کے ظاہر پہ فدا ہے ۔۔۔,۔۔۔ مجھے باطن کی تڑپ
ہاں فقط حسن نہیں ۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔ عشق بنا صبغ میرا

گر مجھے چھوڑنا چاہے تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تیری رضا
میں ہوں راضی با رضا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا جذب میرا
❣️ ❣️ ❣️ مرا مول لگائے گا ۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔ تجھے  علم بھی ہے
میں کہ انمول محبت ہوں ۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔ وفا نسب میرا

تجھ میں تو شر بھی ہے آفت بھی ہے رنگینی بھی
تو کے سیماب طبیعت ہے ۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔ جفا کسب تیرا

تیری آنکھیں ، تیری باتیں ۔۔۔۔,۔۔۔۔ تیرا دلکش لہجہ
ایک اک پل تیری قربت کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بنا کرب میرا

تو  کے ظاہر پہ فدا ہے ۔۔۔,۔۔۔ مجھے باطن کی تڑپ
ہاں فقط حسن نہیں ۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔ عشق بنا صبغ میرا

گر مجھے چھوڑنا چاہے تو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تیری رضا
میں ہوں راضی با رضا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا جذب میرا
❣️ ❣️ ❣️

جمعرات، 25 جون، 2020

پہلے کچھ دیر سوچتا ہوں میں

پہلے کچھ دیر سوچتا ہوں میں
پھر اچانک سے بولتا ہوں میں

مجھ سے شاید خفا خدا بھی ہو
تجھ سے پتھر کو پوجتا ہوں می

مجھ میں میرا رہا ہے کیا باقی؟
خود کو اندر سے کھوجتا ہوں میں

لوگ آتے تھے چھوڑ جاتے تھے
اب تو لوگوں کو چھوڑتا ہوں میں

مجھ سے امید تم نہیں رکھنا
سب کے سب راز کھولتا ہوں میں

اب تو وحشت سے ہوں لرز اٹھتا
آئینہ جب بھی دیکھتا ہوں میں

ایسی عادت ہے گر نہ کوئی ہو
اپنا ہی خون چوستا ہوں میں

اُس کے الفاظ تھے سمندر سے
آج تک اُن میں ڈوبتا ہوں میں

ہے نہ خود کا اتہ پتہ مجھ کو
بس اُسی کو ہی ڈھونڈتا ہوں میں

(~محمد اویس رشید)

بدھ، 24 جون، 2020

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں🥀
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں🥀

یوں ھی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ھے🥀
کس قدر جلد بدل جاتے ھیں انساں جاناں🥀

زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ھے🥀
ھم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں🥀

دل یہ کہتا ھے کہ شاید ھو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ھے ناداں جاناں🥀

اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر🥀
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں🥀

آخر آخر تو یہ عالم ھے کہ اب ہوش نہیں🥀
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں🥀

مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید🥀
دل پکارے ھی چلا جاتا ہے جاناں! جاناں!🥀

اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں🥀
سر بہ زانوں ھے کوئی سر بہ گریباں جاناں🥀

ھر کوئی اپنی ھی آواز سے کانپ اٹھتا ھے🥀
ھر کوئی اپنے ھی سایے سے ھراساں جاناں🥀

جس کو دیکھو وہ ھی زنجیز بپا لگتا ھے 🥀
شہر کا شہر ھوا داخل ھُوا زِنداں جاناں🥀

ھم بھی کیا سادہ تھے ھم نے بھی سمجھ رکھا تھا🥀
غمِ دوراں سے جدا ھے غمِ جاناں جاناں🥀

ھم ، کہ روٹھی ھُوئی رُت کو بھی منا لیتے تھے🥀
ھم نے دیکھا ھی نہ تھا موسم ھجراں جاناں🥀

ھوش آیا تو سب ھی خواب تھے ریزہ ریزہ 🥀
جیسے اُڑتے ھوئے اُوراقِ پریشاں جاناں🥀

اب ترا ذکر بھی شاید ھی غزل میں آئے🥀
اور سے اور ھوئے درد کے عنواں جاناں🥀

🥀✍️احمّد فراز“🥀
             

منگل، 23 جون، 2020

🌹”ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر“🌹

🌹”ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر“🌹

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دل ابھی بھرا نہیں🥀

ابھی ابھی تو آئے ھو🥀
بہار بن کے چھائے ھو🥀
ھوا ذرا مہک تو لے
نظر ذرا بہک تو لے🥀

یہ شام ڈھل تو لے ذرا🥀
یہ دل سنبھل تو لے ذرا🥀
میں تھوڑی دیر جی تو لُوں🥀
نشے کے گھونٹ پی تو لُوں

ابھی تو کچھ کہا نہیں🥀
ابھی تو کچھ سُنا نہیں

ستارے جِھلملا اُٹھے🥀
چراغ جَگمگا اُٹھے🥀
بس اب نہ مجھ کو ٹوکنا
نہ بڑھ کے راہ روکنا🥀

اگر میں رُک گیا ابھی🥀
تو جا نہ پاؤں گا کبھی🥀
یہی کہو گے تم سدا🥀
کہ دل ابھی نہیں بھرا🥀

جو ختم ھو کسی جگہ🥀
یہ ایسا سلسلہ نہیں🥀
ابھی نہیں , ابھی نہیں🥀
نہیں نہیں.. نہیں نہیں🥀

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر🥀
کہ دل ابھی بھرا نہیں🥀

ادھُوری آس چھوڑ کے🥀
جو روز یونہی جاؤ گے🥀
تو کس طرح نبھاؤ گے؟؟🥀

کہ زندگی کی راہ میں🥀
جواں دلوں کی چاہ میں🥀
کئی مقام آئیں گے🥀
جو ھم کو آزمائیں گے🥀

بُرا نہ مانو بات کا🥀
یہ پیار ھے ، گلہ نہیں🥀

یہی کہو گے تم سدا🥀
کہ دل ابھی بھرا نہیں🥀
ھاں ، دل ابھی بھرا نہیں🥀
نہیں نہیں.. نہیں نہیں🥀

ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر🥀
کہ دل ابھی بھرا نہیں🥀

🥀✍️ساحر لدھیانوی“🥀
                         🥀انتخاب مظہر مظہر 🥀

آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا

www.poetry of amjad islam amjad.
آنکھوں کا رنگ ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ، ایک شام میں کتنا بدل گیا

کُچھ دن تو میرا عکس رھا ، آئینے پہ نقش
پھر یوں ھُوا ، کہ خُود میرا چہرا بدل گیا

جب اپنے اپنے حال پہ ، ھم تم نہ رہ سکے
تو کیا ھُوا ، جو ھم سے زمانہ بدل گیا ؟؟

قدموں تلے جو ریت بچھی تھی ، وہ چل پڑی
اُس نے چھڑایا ھاتھ تو ، صحرا بدل گیا

کوئی بھی چیز ، اپنی جگہ پر نہیں رھی
جاتے ھی ایک شخص کے ، کیا کیا بدل گیا

اِک سر خوشی کی موج نے ، کیسا کیا کمال
وہ بے نیاز ، سارے کا سارا بدل گیا

اُٹھ کر چلا گیا ، کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اُٹھا ، تو سارا تماشا بدل گیا

حیرت سے سارے لفظ اُسے دیکھتے رھے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا

کہنے کو ایک صحن میں ، دیوار ھی بنی
گھر کی فضا ، مکان کو نقشہ بدل گیا

شاید وفا کے کھیل سے ، اُکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آ کے ، جو رستہ بدل گیا

قائم کسی بھی حال پہ ، دُنیا نہیں رھی
تعبیرکھو گئی ، کبھی سَپنا بدل گیا

منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا
جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا

اندر کے موسموں کی خبر اُس کو ھو گئی
اُس نو بہارِ ناز کا چہرا بدل گیا

آنکھوں میں جتنے اشک تھے ، جگنو سے بن گئے
وہ مُسکرایا ، اور میری دُنیا بدل گیا

اپنی گلی میں اپنا ھی گھر ڈھو نڈتے ھیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا ؟؟

امجد اسلام امجد

#مانوس_اجنبی

اتوار، 21 جون، 2020

مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے

مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے
شاید اب بھی تیرا غم دل سے لگا رکھا ہو
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو

میں نے مانا کہ وہ بیگانہ ٴپیمانِ وفا
کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں
شاید اب لوٹ کے نہ آئے تیری محفل میں
اور کوئی دکھ نہ رلائے تجھے تنہائی میں

میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ
چاہے امید کی شامیں ہوں کہ یادوں کے چراغ
مستقل بُعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ

پھربھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے
مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں
زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتا ہے
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں

یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارہ کر لے
تُو کہ معصوم بھی ہے، زُود فراموش بھی ہے
اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارہ کر لے

اور میں جس نے تجھے اپنا مسیحا سمجھا
ایک زخم اور بھی پہلے کی طرح سہہ جاؤں
جس پہ پہلے بھی کئی عہدِ وفا ٹوٹے ہیں
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں

( احمد فراز )

ہفتہ، 20 جون، 2020


بچھڑ نے سے ذرا پہلے وہ دل کی شادمانی بس تم اوجھل یہ دل بوجھل ہماری زندگانی بس

بچھڑ نے سے ذرا پہلے وہ دل کی شادمانی بس
تم اوجھل یہ دل بوجھل ہماری زندگانی بس

اُنھیں ہسنے ہسانے کی جو عادت ڈال دی ہم نے
ذرا دکھڑا سنائیں تو وہ بولیں یہ کہانی بس

بہت ساغر بہت مے تھی بہت تھے حوصلےدل کے
تبھی ہم نے یہ سوچا تھا تمہاری حکمرانی بس

بہت ہم مل لیے تم سے تمہارے نیک جذبوں سے
ہمیں خود سے بھی ملنے دو تمہاری مہربانی بس

سرِ محشر عبادت کا سوال آیا تو کہہ دیں گے
درِ جاناں پہ اک سجدہ ہے اپنی بندگانی بس

ہفتہ، 13 جون، 2020

وہ جس پہ ہم کو بھروسہ ہی بے تحاشا تھا

12-06-2020
وہ جس پہ  ہم  کو  بھروسہ ہی بے تحاشا تھا
اُسی  کے   واسطے   یہ   پیار  اِک   تماشا  تھا

ہمیں  وہ   دیکھ  کے  ہنستا  تھا  بِلبلاتے  ہُوۓ
سو   ہم   نے   زخم  سِسکتے  ہوئے  خراشا تھا

مِلا  نہیں تھا جہانوں کی خاک چھان  کے بھی
اُسے   وجود   میں   اپنے   ہی   پھر  تلاشا تھا

وفا   شعار   تھے  احباب  ڈھال ہی   تھے  مگر
نہ   جانے  کس   نے  ہمارے   بدن کو  قاشا تھا

جو  نِیم  جان  پڑا   تھا  وہ جسم  برسوں بعد
کسی   کے   لمس  کے   جادُو   سے ارتعاشا تھا

ہمارے ذہن  میں رہتی تھی سوچ اُس کی فقط
یہ دِل بھی شوق سے سُنتا اُسی کی بھاشا تھا

غلط  نہیں   تھا   اُسے   دیکھ   کر   بدلتے  راہ
اُسے تو  ہم  نے کہا  پھر  بھی "دَل تہ راشا" تھا

ہماری    نرم   مزاجی   کے   معترف  تھے  عُدو
کہ  ہم  نے  مُنہ  میں  رکھا  خُلق  کا  بتاشا تھا

طلب  ہوئی  ہمیں کاشف  کبھی  جو لکھنے کی
قلم  نے  اس کا  ہی پھر خال  و  خد  تراشا تھا

                                                   کاشف رانا

اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر

اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر

حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر

اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب
میں نے تو کہا تھا کہ مِرے دل میں رہا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گِرا کر

اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تُو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر

میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مِرا نام لکھا کر

پہلا سا کہاں اب مِری رفتار کا عالم
اے گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر

اِس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

بدھ، 10 جون، 2020

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا
زندہ ہیں کتنے لوگ محبت کئے بغیر

گزرے دنوں میں جو کبھی گونجے تھے قہقہے
اب اپنے اختیار میں وہ بھی نہیں رہے

قسمت میں رہ گئی ہیں جو آہیں تو کیا ہوا
صدمہ یہ جھیلنا ہے شکایت کئے بغیر

وہ سامنے بھی ہوں تو نہ کھولیں گے ہم زباں
لکھی ہے اس کے چہرے پہ اپنی ہی داستاں

اس کو ترس گئی ہیں یہ باہیں تو کیا ہوا
وہ لوٹ جائے ہم پہ عنایت کئے بغیر

پہلے قریب تھا کوئی اب دوریاں بھی ہیں
انسان کے نصیب میں مجبوریاں بھی ہیں

اپنی بدل چکا ہے وہ راہیں تو کیا ہوا
ہم چپ رہیں گے اس کو ملامت کئے بغیر

قتیل شفائی💔💔

اپنے رونے پہ کچھ آیا جو تبسّم مجھ کو

اپنے رونے پہ کچھ آیا جو تبسّم مجھ کو
یاد نے اُس کی کہا بھول گئے تم مجھ کو

ہنستے ہنستے کبھی روتا ہوں تصّور میں ترے
روتے روتے کبھی آتا ہے تبسّم مجھ کو

کیوں گناہ لیتے ہیں تھوڑی سی پلانے والے
کل ملے کوثر اُسے آج جو دے خم مجھ کو

کیا کرے دیکھئے کوثر پہ مری تشنہ لبی
سوکھا جاتا ہے یہاں دیکھ کے قلزم مجھ کو

مسکرائے مری میّت پہ وہ منہ پھیر کے داغ
حشر تک یاد رہے گا یہ تبسّم مجھ کو

داغ دہلوی💔💔

منگل، 9 جون، 2020

وہ دل کہاں سے لاؤں تیری یاد جو بُھلا دے

وہ دل کہاں سے لاؤں تیری یاد جو بُھلا دے🥀
مجھے یاد آنے والے کوئی راستہ بتا دے🥀

رہنے دے مجھ کو اپنے قدموں کی خاک بن کر🥀
جو نہیں تُجھے گوارا مجھے خاک میں ملا دے🥀

میرے دل نے تُجھ کو چاہا کیا یہی میری خطا ہے🥀
مانا خطا....... ہے لیکن....... ایسی تو نہ سزا دے🥀

مجھے تیری بے رُخی کا کوئی شکوہ نہ گِلہ ہے🥀
لیکن میری وفا کا مجھے کچھ تو اب صِلہ دے🥀

وہ دل کہاں سے لاؤں تیری یاد جو بُھلا دے🥀
مجھے یاد آنے والے کوئی راستہ بتا دے 🥀

    🥀 انتخاب 🥀
                   🥀 مظہر مظہر 🥀

دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں

#جگر_مرادآبادی....
دل میں کسی کے راہ کئے جا رہا ہوں میں
کتنا حسیں گناہ کئے جا رہا ہوں میں

دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں میں
صرف نگاہ و آہ کئے جا رہا ہوں میں

فرد عمل سیاہ کئے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کئے جا رہا ہوں میں

ایسی بھی اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں
ذروں کو مہر و ماہ کئے جا رہا ہوں میں

مجھ سے لگے ہیں عشق کی عظمت کو چار چاند
خود حسن کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں

دفتر ہے ایک معنئ بے لفظ و صوت کا
سادہ سی جو نگاہ کئے جا رہا ہوں میں

آگے قدم بڑھائیں جنہیں سوجھتا نہیں
روشن چراغ راہ کئے جا رہا ہوں میں

معصومئ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کچھ گناہ کئے جا رہا ہوں میں

تنقید حسن مصلحت خاص عشق ہے
یہ جرم گاہ گاہ کئے جا رہا ہوں میں

اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے روبرو
نادیدہ اک نگاہ کئے جا رہا ہوں میں

گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں

یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر
جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں

مجھ سے ادا ہوا ہے جگرؔ جستجو کا حق
ہر ذرے کو گواہ کئے جا رہا ہوں میں
انتخاب ملک آصف

ہفتہ، 6 جون، 2020

Us na kahaaa manxil mushkil hai

❣#اس_نے_کہا_منزل_مشکل_ہے❣
❣#ہم_نے_کہا_چلو_ساتھ_چلتے_ہیں❣

                         ❣اس نے کہا محبت ہوجائے گئ❣
                         ❣ہم نے کہا چلو بات کرتے ہیں❣

            ❣#اس_نے_کہا_تمہارا_ساتھ_کیا_ہے❣
                         ❣#ہم_نے_کہا_محبت_وفاہے❣

           ❣اس نے کہا وعدہ کرو ہم سے❣
                    ❣ہم نے کہا زندگی بے وفا ہے❣

        ❣#اس_نے_کہا_چھوڑ_تو_نہیں_جاو_گئے❣

                      ❣#ہم_نے_کہا_موت_کا_کیا_پتہ_ہے❣
◦•●◉✿[ 彡★*

* *میں اداس ہوں کوئی بات کر

*میرے جان و دل___ میرے ہمسفر*
*میں اداس ہوں کوئی بات کر.,,!!*

*تیرے لب ہلیں_____ تو کٹے سفر.*
*میں اداس ہوں کوئی بات کر,,!!*

*کوئی بوجھ ہو تو_____ اتار دے*
*کوئی خوف ہو تو____ نکال دے,,!!*

*میرا ہاتھ ہے_______تیرے ہاتھ پر*
*میں اداس ہوں کوئی بات کر ,,!!*

*نہیں_____ یاد کتنے برس گئے*
*تیری گفتگو کو______ترس گئے,,!!*

*میری کھڑکیاں___دیوار و در*
*میں اداس ہوں کوئی بات کر ,,!!*

*تجھے____ چپ ہےکیسی لگی ہوئی*
*ابھی عمر تو ہے_____ پڑی ہوئی,,!!*

*ابھی مسکرا_____ابھی غم نہ کر*
*میں اداس ہوں کوئی بات کر..!!*
◦•● ]彡★

خوشبوکی طرح دل کے گلابوں میں رہے گا

خوشبو کی طرح دل کے گلابوں میں رہے گا
وہ چاند ہمیشہ میرے خوابوں میں رہے گا

بھیگی ہوئی آنکھوں سے گلے مل کے بچھڑنا
وہ شخص سدا دل کے نصابوں میں رہے گا

شاید میں ابھی اس کے جگر تک نہیں اترا
شاید وہ ابھی اور نقابوں میں رہے گا

سانسوں کی طرح میں، تیری نس نس میں رہوں گا
کھو کر تُو مجھے خود بھی عذابوں میں رہے گا

نشہء تو تیرے قرب کا ہے جانِ تمنا
کیا لطف تیرے بعد شرابوں میں رہے گا

ہاں پیار ہے، ہاں پیار ہے، سولی پہ چڑھا دو
اقرار ہے، اقرار ہے، جوابوں میں رہے گا
**

آب تو آنکھوں میں سماتی نہیں صورت کوئی

اب تو آنکھوں میں سماتی نہیں صورت کوئی_!💕

غور سے میں نے تجھے کاش نہ دیکھا ہوتا _!❤
 *~اب تو آنکھوں میں سماتی نہیں صورت کوئی_!💕

غور سے میں نے تجھے کاش نہ دیکھا ہوتا _!❤
 *~اب تو آنکھوں میں سماتی نہیں صورت کوئی_!💕

غور سے میں نے تجھے کاش نہ دیکھا ہوتا _!❤
 *~اب تو آنکھوں میں سماتی نہیں صورت کوئی_!💕

غور سے میں نے تجھے کاش نہ دیکھا ہوتا _!❤
 *~اب تو آنکھوں میں سماتی نہیں صورت کوئی_!💕

غور سے میں نے تجھے کاش نہ دیکھا ہوتا _!❤
 *~

پھر یوں ہوا کے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا

پھر یوں ہوا کے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا
 ثابت ہوا کے لازم و ملزوم کچھ نہیں

 پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے
 وہ بھی انا پرست تھا میں بھی انا پرست

 پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر گیا
 خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا

ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻟﺬّﺕ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻦ ﮔﺌﯽ
 ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﻣﻮﻡ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﺎ ﮔﯿﺎ

پھر یوں ہوا کہ لب سے ہنسی چھین لی گئی
پھر یوں ہوا کہ ہنسنے کی عادت نہیں رہی

 پهر یوں ہوا کہ، زخم نے جاگیر بنا لی
 پهر یوں ہوا کہ، درد مجھے راس آ گیا

 پپھر یوں ہوا کے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا
 ثابت ہوا کے لازم و ملزوم کچھ نہیں

 پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے
 وہ بھی انا پرست تھا میں بھی انا پرست

 پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر گیا
 خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا

ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻟﺬّﺕ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻦ ﮔﺌﯽ
 ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﻣﻮﻡ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﺎ ﮔﯿﺎ

پھر یوں ہوا کہ لب سے ہنسی چھین لی گئی
پھر یوں ہوا کہ ہنسنے کی عادت نہیں رہی

 پهر یوں ہوا کہ، زخم نے جاگیر بنا لی
 پهر یوں ہوا کہ، درد مجھے راس آ گیا

 پھر یوں ہوا کہ، وقت کے تیور بدل گئے
 پھر یوں ہوا کہ راستے یکسر بدل گئے

 پھر یوں ہوا کہ حشر کے سامان ہوگئے
 پھر یوں ہوا کہ شہر بیابان ہوگئے

پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کے ہم
اتنا چلے کہ راستے حیران ہوگئے..........!!ھر یوں ہوا کہ، وقت کے تیور بدل گئے
 پھر یوں ہوا کہ راستے یکسر بدل گئے

 پھر یوں ہوا کہ حشر کے سامان ہوگئے
 پھر یوں ہوا کہ شہر بیابان ہوگئے

پھر یوں ہوا کہ صبر کی انگلی پکڑ کے ہم
اتنا چلے کہ راستے حیران ہوگئے..........!!

تیرے اکتاتے ہوئے لمس سے محسوس ہوا

تیرے اکتاتے ہوئے لمس سے محسوس ہوا !
اب بچھڑنے کا ترے وقت ہوا چاہتا ہے !

اجنبیت ترے لہجے کی ! پتا دیتی ہے !
تُو خفا ہے تو نہیں ! ہونا خفا چاہتا ہے !

میری تہمت نہ لگے تجھ پہ ! سو میں دور ہوا !
مجھ سے بڑھ کر ترا اب کون، بھلا چاہتا ہے !

میں کہ خود کو بھی کوئی فیض کبھی دے نہ سکا !
اور تُو ہے کہ فقط مجھ سے صلہ چاہتا ہے !

تُو مجھے روز ملے ! ملتا رہے ! ملتا رہے !
میں کہوں یا نہ کہوں ! دل تو مرا چاہتا ہے !

تُو تو مجھ طالبِ غم شخص پہ حیران نہ ہو
دل بڑا ہے ناں ! سو یہ غم بھی بڑا چاہتا ہے !

سب کہیں ہم نے تجھے چاہا ! تُو دیکھے مری سمت !
اور اشارے سے کہے ! سب سے جدا چاہتا ہے !

زین_شکیل

Ek charaaaa

ایک چہرے سے اُترتی ہیں نقابِیں کتنی
لوگ کِتنے ہمیں ایک شخص میں مِل جاتے ہیں

وقت بدلے گا اِس بار تو میں پوچھوں گا اُس سے
تم بدلتے ہو تو کیوں لوگ بدل جاتے ہیں...

دیار غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے

دیار غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے
تو مل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
تمہی نے ہم کو سنایا نہ اپنا دکھ ورنہ
دعا وہ کرتے کہ ہم آسماں ہلا دیتے
ہمیں زعم رہا کہ اب وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیں گے
وہ تیرا غم تھا کہ تاثیر میرے لہجے کی
کہ جس کو حال سناتے وہ رلا دیتے
تمہیں بھلانا ہی اول تو دسترس میں نہیں
جو اختیار بھی ہوتا تو کیا بھلا دیتے
تمہاری یاد میں کوئی جواب ہی نہ دیا
میرے خیال ہی آنسو رہے صدا دے کر
ہم اپنے بچوں سے کیسے کہیں کہ یہ گڑیا
ہمارے بس میں جو ہوتی تو دلا دیتے
سماعتوں کو میں تا عمر کوستا سیدؔ
وہ کچھ نہ کہتے ہونٹ تو ہلا دیتے
وصی شاہ

تمہیں جب رو برو دیکھا کریں گے

محسن نقوی

تمہیں جب رو برو دیکھا کریں گے
یہ سوچا ہے بہت سوچا کریں گے

نظر میں چودھویں کا چاند ہو گا
سمندر کی زباں بولا کریں گے

بلا سے وصل کی رت ہو کہ ہجراں
تمہارے سامنے رویا کریں گے

کبھی تو سرخرو ٹھہریں گے جذبے
تمہیں خط خون سے لکھا کریں گے

زمین جب سورجوں سے جا ملے گی
گھنے پیڑوں کے سائے کیا کریں گے ؟

تمہارا عکس جب اترے گا دل میں
بدن میں آئینے.......... ٹوٹا کریں گے

جو اپنے آپ میں گم ہو چکے ہیں
وہ خود کو خود پہ کیا افشا کریں گے ؟

بچھڑنا ہے تو یہ طے کر لیں اب سے
جدائی کا سفر تنہا کریں گے ..........!

نہ آئے گا کوئی الزام تجھہ پر
ہم اپنے آپ کو رسوا کریں گے

وہ بستی سے ادھر برگد اکیلا
ہم اس کے سائے میں بیٹھا کریں گے

اس الجھن میں کٹی ہے عمر محسن
کہ پل دو پل میں ہم کیا کیا کریں گے ؟

Marti hoie ko bachanaaa pada muja

مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے

بادل کی طرح دشت میں آنا پڑا مجھے

وہ کر نہیں رہا تھا مری بات کا یقیں

پھریوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے

بھولے سے میری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا

چہرے پہ ایک زخم لگانا پڑا مجھے

اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے

محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے

یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی

اُس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے

اُس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار

کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے

ایسے بچھڑ کے اُس نے تو مر جانا تھا حسنؔ

اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے

حسن عباسی💔💔

taree Har baat

راحت اندوری💖💖

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے

آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے

ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے

آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے

میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے

منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے

Hawa q bol jatie hai

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب کلام ہوا کیوں بھول جاتی ہے ؟؟ کہ اپنے رتجگے تیرا اثاثہ ہیں ہماری جاگتی راتوں کی ساری کرچیاں آنکھوں میں چبھتی ہیں تو کچھ یاد آتا ہے !! سفر ، آوارگی ، ہجر و وصال دلفگاراں محفل لالہ رخاں ، عکس ہجوم گلغزاراں ، " ماتم یاراں " ہوا ______اندھی ہوا___!! جب بھی تھکے ہارے پرندوں کی طرح خود ٹوٹ کر بکھرے ہوۓ پتے زمیں کی خاک چنتی ہے بھٹکتے رہروؤں کے نقش پا رستوں کی پتھریلی ہتھیلی سے اٹھاتی ہے کسی اجڑے ہوۓ کھنڈر کی خامشی جب سنسناتی ہے !! ہوا کیوں بھول جاتی ہے ؟؟ کہ ہم اپنے کواڑوں کو تیری دستک سے پہلے اپنے بوسیدہ گریبانوں کی صورت کھول دیتے ہیں تیری خاطر ہم اپنی آنکھوں میں ستارے گھول دیتے ہیں مگر کب تک ؟ تجھے تو خیر یوں بھی راس ہے صدیوں کا سناٹا ، سفر ، آوارگی موسم کی بے مہری مگر کب تک ؟؟ ہماری آنکھوں میں چبھتے رتجگے کب تک ؟ خود اپنے آپ ملنے میں حائل " فاصلے " کب تک ؟ ہوا کیوں بھول جاتی ہے ؟ کہ ہم تیرے سوا اپنے بھی "کچھ لگتے " تو ہیں آخر ! ہوا تجھ سے جو ممکن ہو تو صدیوں کی تھکن اشکوں سے دھونے دے ہمیں کھل کے رونے دے دل بے مہر کو چبھتے ہوۓ خوابوں کے پس منظر میں کھونےدے ؟؟ ہوا ___ پل بھر کو سونے دے ___! (غزل) لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی میں جشن فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی اب ایک پل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے ہم اہل دل کبھی عادی تھے انتظار کے بھی وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی زمین اوڑھ لی ہم نے پہنچ کے منزل پر کہ ہم پہ قرض تھے کچھ گرد رہ گزار کے بھی مجھے نہ سن مرے بے شکل اب دکھائی تو دے میں تھک گیا ہوں فضا میں تجھے پکار کے بھی مری دعا کو پلٹنا تھا پھر ادھر محسنؔ بہت اجاڑ تھے منظر افق سے پار کے بھی..! (غزل) دشتِ ہجراں میں نہ سایہ، نہ صدا تیرے بعد کتنے تنہا ہیں، تیرے آبلہ پا تیرے بعد عکس و آئینہ میں اب ربط ہو کیا تیرے بعد ہم تو پھرتے ہیں خود اپنے سے خفا تیرے بعد لب پہ اک حرفِ طلب تھا، نہ رہا تیرے بعد دل میں تاثیر کی خواہش، نہ دعا تیرے بعد پیرہن اپنا سلامت، نہ قبا تیرے بعد وہی ہم ہیں، وہی صحرا کی ردا تیرے بعد درد سینے میں ہوا نوحہ سرا تیرے بعد دل کی دھڑکن ہے کہ ماتم کی صدا تیرے بعد کیسے رنگوں کے بھنور، کیسی حنا تیرے بعد اپنا خوں اپنی ہتھیلی پہ سجا تیرے بعد تجھ سے بچھڑا تو مرجھا کے ہوا برد ہوا کون دیتا مجھے کهلنے کی دعا تیرے بعد تو کہ سمٹا تو، رگ جاں کی حدوں میں سمٹا میں کہ بکهرا تو، سمیٹا نہ گیا تیرے بعد یہ الگ بات کہ، افشاں نہ ہوا تو ورنہ میں نے کتنا تجھے محسوس کیا تیرے بعد ملنے والے کئی مفہوم پہن کر آئے کوئی بھی چہرہ نہ آنکھوں نے پڑھا تیرے بعد میری دکھتی ہوئی آنکھوں سے گواہی لینا میں نے سوچا تجھے اپنے سے سوا تیرے بعد جان_محسن میرا حاصل، یہی مبہم سطریں شعر کہنے کا ہنر بھول گیا تیرے بعد...! (غزل) تمام عمر وہی قصہ سفر کہنا کہ آسکا نا ہمیں اپنے گھر کو گھر کہنا جو دن چڑھے تو تیرے وصل کی دعا کرنا جو رات ہو تو دعا ہی کو بے اثر کہنا یہ کہہ کے ڈوب گیا آج آخری سورج کے ہو سکے تو اسی شب کو اب سحر کہنا میں اب سکوں سے رہوں گا کہ آ گیا ہے مجھے کمالِ بے ہنری کو بھی اِک ہنر کہنا وہ شخص مجھ سے بہت بدگمان سا رہتا ہے یہ بات اس سے کہو بھی تو سوچ کر کہنا کبھی وہ چاند جو پوچھے کے شہر کیسا ہے بجھے بجھے ہوئے لگتے ہیں بام و در کہنا ہمارے بعد عزیزوں ہمارا افسانہ کبھی جو یاد بھی آئے تو مختصر کہنا وہ ایک میں کے میرا شہر بھر کو اپنے سوا تیری وفا کے تقاضوں سے بے خبر کہنا وہ اِک تُو کہ تیرا ہر کسی کو میرے بغیر معاملاتِ محبت میں معتبر کہنا وفا کی طرز ہے محسؔن کے مصلحت کیا ہے یہ تیرا دشمن جان کو بھی چارہ گر کہنا...! ✍... محسؔن نقوی(شاعر درد) #MWAQAS...?#انتخاب

ﺗﻢ ﺍﮐﺜﺮ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﮨﻮ ﻧﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ

ﺗﻢ ﺍﮐﺜﺮ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﮨﻮ ﻧﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﺳﻨﻮ! ﺗﻢ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ ؟ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺳﻨﻮ ﺍﮮ ﻧﯿﮏ ﺩﻝ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺩﻭ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﭘﺎﮐﯿﺰﮦ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﮯ" ﺳﻨﻮ ﻟﮍﮐﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺭﺷﺘﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﭘﮩﻠﮯ ﺯﻣﯿﮟ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﺪﺍ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﻭﺡ ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻗﺴﻤﺘﯿﮟ ﻟﮑﮭﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﻮﻧﮕﯽ ﺳﻨﻮ ﻟﮍﮐﯽ! ﺍﺳﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﮐﮯ ﭘﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﮞ ﺍﮎ ﺭﺑﻂ ﺑﺎﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﻟﮑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ ﺑﺘﺎﺅ ﭘﮭﺮ ؟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ؟ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﺎ !!! ن۔م

گلے مل کر بچھڑتے تو قیامت ہوتی💔💔

چلو اچھا ہوا عید تنہا ہی گزرا ھم نے💔💔 DUKHII گلے مل کر بچھڑتے تو قیامت ہوتی💔💔

یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے

#خورشید_رضوی.. ہااااااۓ کوئی جواب نہیں ملاحظہ ہو یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی وہی زاویے کہ جو عام تھے مجھے کھا گئے میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں یہ جو لوگ محو کلام تھے مجھے کھا گئے وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے یہ عیاں جو آب حیات ہے اسے کیا کروں کہ نہاں جو زہر کے جام تھے مجھے کھا گئے وہ نگیں جو خاتم زندگی سے پھسل گیا تو وہی جو میرے غلام تھے مجھے کھا گئے میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضرر نہ تھا پہ جو وسوسے تہہ دام تھے مجھے کھا گئے جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں یہ جو زہر خندہ سلام تھے مجھے کھا گئے انتخاب ملک آصف